السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
قرآن مجید میں سورہ توبہ کی 17ویں اور 18ویں آیات میں ، مساجد کی دیکھ بھال کےسلسلے میں صریح حکم صادر ہے،فقہاء شافعی مسجد کی تعمیر ومرمت کےلیے کافروں سےچندہ لینا درست بتاتےہیں ۔جبکہ حنفی فقہاء کےنزدیک یہ ناجائز ہے،البتہ اگرکوئی غیرمسلم کسی مسلم کوچندہ دےاور وہ مسلم مسجد کےلیے دےدے،توایسی صورت میں حنفی فقہاء کےنزدیک یہ ناجائز ہے،بشرطیکہ وہ پیسہ حرام کمائی کانہ ہو ۔بعض مفسرین اس کے جواز کےلیے حدیث رسول :’’ ان الله يؤيد هذا الدرين بالرجل الفاجر،، کوپیش کیا ہے ۔اب سوال یہ ہےکہ آج کےحالات کےپیش نظر مسجد کی تعمیر میں کافروں سےمالی تعاون لیناجائز ہےیا نہیں ؟
السائل : زین العابدین مدراس
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
کسی غیرمسلم کے خواہ وہ ہندوہویاعیسائی یایہودی ،مسجد سےتعلق رکھنے کی صورتیں دو ہوسکتی ہیں :
(1) مسجد کی تعمیر میں مالی تعاون کا تعلق ۔
(2) مسجد کی تولیت ،خدمت ،مجاوری ،آبادکار ی اورنگرانی ۔
پہلی صور ت کے دوطریقےہوسکتےہیں :
ایک : یہ کہ مسلمان مسجد کی تعمیر میں غیرمسلم کامالی تعاون حاصل کرنے کےلیے خودان کےیہاں جائیں ،اور ان سے تعاون کی درخواست کریں اوراس کےلیے ان کےسامنے ہاتھ پھلائیں ۔یہ طریقہ ہمارے نزدیک جائز نہیں ہے۔اپنی عبادت گاہ (مسجد ) کی تعمیر میں ان کی مالی امداد حاصل کرنےکےلیے جانا اورچندہ وصول کرنا،اسلامی غیرت کےبالکل منافی ہے۔
دوسرا طریقہ : یہ ہےکہ غیرمسلم بغیر ہمارے درخواست اورخواہش ظاہر کرنےکے ازخودمالی تعاون پیش کرے،یا مسجد بنوا کر ہمارے حوالے کرکے ہماری تولیت دےدے۔ایسی حالت میں مالی تعاون قبول کرنا اورمسجد کی تعمیر میں اس کاصرف کرنا بلاشبہ ہمارے نزدیک جائز اورمباح ہے،اس میں ہمارے نزدیک شرعا کوئی قباحت نہیں ہے،لیکن اس طریقہ پرعمل کرنے کےلیے دوشرطیں ضروری ہیں :
پہلی : یہ کہ اس پیش کردہ مالی تعاون کی رقم بالکل حلال کمائی کی ہو، حرام کمائی مثلاً: جوا،شراب ،سود وغیرہ کی نہ ہو۔اوراس کی پیش کردہ مالی اعانت کےمتعلق ہم کو پورا یقین واطمینان ہوکہ وہ صرف حلال کمائی ہی کی ہے۔،،
دوسری شرط : یہ ہےکہ آئندہ غیرمسلم کی طرف سے مسجد کےمعاملہ میں ’’قانونا اور روا جا ،، دخل دینے کااحتمال اورگنجائش نہ ہو ،لیکن ہندوستان میں جیسے کچھ حالات ہونےجارہے ہیں ،ان کےپیش نظر ان دونوں شرطوں کےپوری ہونے کےباوجود،ان کی مالی پیش کش قبول کرنا مصلحت کےخلاف ہے۔
مسجد کی تعمیر کےسلسلہ میں ان کےتعاون مالی کی پیش کش قبول کرنے کےجواز کی دلیل یہ ہےکہ قریش مکہ نے کعبہ کی تعمیر اپنی حلال وپاکیزہ کمائی سےکرائی تھی ،جسےآنحضرت نےباقی رکھا ،اور اس کاطواف کیا اور اس میں نماز اداکی ، اس سے بڑھ کر صورت مذکورہ کےجواز کی کوئی دلیل نہین ہوسکتی ، اس بارےمیں ائمہ اربعہ یاکسی اورامام کی فقہ اورفتویٰ دیکھنے کی قطعا کوئی ضرورت نہیں ہے۔
کسی غیرمسلم کےلیے مسجد سےتعلق بصورت تولیت یامجاوری وخدمت وآباد کاری قطعادرست اورجائز نہیں ہے، ان کو ہرگز یہ حق پہنچتا کہ وہ ہماری مسجد کےساتھ تولیت اوراس کی مجاوری وآباد کاری وخدمت کاحق جتائیں ،یاکسی طرح یہ حق حاصل کرنے کی کوشش کریں ،سورہ توبہ ،میں صاف اورصریح ارشاد ہے: ﴿ما كانَ لِلمُشرِكينَ أَن يَعمُروا مَسـٰجِدَ اللَّـهِ شـٰهِدينَ عَلىٰ أَنفُسِهِم بِالكُفرِ أُولـٰئِكَ حَبِطَت أَعمـٰلُهُم وَفِى النّارِ هُم خـٰلِدونَ ﴿١٧﴾ إِنَّما يَعمُرُ مَسـٰجِدَ اللَّـهِ مَن ءامَنَ بِاللَّـهِ وَاليَومِ الـٔاخِرِ وَأَقامَ الصَّلوٰةَ وَءاتَى الزَّكوٰةَ وَلَم يَخشَ إِلَّا اللَّـهَ فَعَسىٰ أُولـٰئِكَ أَن يَكونوا مِنَ المُهتَدينَ ﴿١٨﴾...التوبة
اس آیت میں عمارت مسجد سےمراد: اس کی تولیت اورآبادکاری اورمجاوری وخدمت وغیرہ ہے،مسجد کرانا یا اس کی تعمیر میں مالی تعاون پیش کرنے کےذریعے حصہ لینا مراد نہیں ۔ ہذا ماظہر والعلم عنداللہ املاہ عبیداللہ رحمانی المبارکفوری
25؍1؍1413ھ (سہ ماہی افکار عالیہ مؤناتھ بھنجن ج :4،ش:4 رمضان تاذی القعدہ 1428ھ ؍ اکتوبر تادسمبر 2007ء)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب