سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(95)گندگی والی جگہ پر مسجد تعمیر کرنا

  • 16084
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 973

سوال

(95)گندگی والی جگہ پر مسجد تعمیر کرنا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک مقام پرپہلے عیدگاہ تھی ،اب اس کےمتصل ہی نئی عیدگاہ بن گئی ہےاوراس  میں  عیدین کی نماز ہورہی ہے۔پرانی عیدگاہ اب گندگی وغلاظت  کاڈھیربن گئی ہے،اورنازیبا حرکات کےلیے استعمال کی جانے لگی ہے۔پرانی عیدگاہ کےمنتظمین اس جگہ دینی مدرسہ قائم کرناچاہتے ہیں ۔کیا اس پرانی عیدگاہ اوراس سے متصل عیدگاہ موقوفہ زمین پرمسجد ،مدرسہ ، دارالاقامہ اورتعلیمی وتدریسی ضروریات پوری کرنے کےلیے کرایہ کی دوکانوں کابنانا جائز ہے؟ کیا مجلس انظامیہ جووقف بورڈ سےمنظورشدہ ہےاور جس کےانتظام میں یہ پرانی عیدگاہ ہے،مدرسہ کےقیام اوراس کےلیے ضروری تعمیرات کاحق رکھیتی ہے؟ شریعت مطہرہ کی روشنی میں جواب سےسرفراز فرمائیں ۔ السائل : مرزا ماجد بیگ علی گڑھ 


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

نئی عیدگاہ بن جانے کےپرانی عیدگاہ جو بالکلیہ متروک ہوچکی ہےاوروہاں گندگی وغلاظت اورناریبا حرکات ہونےلگی ہیں ،اس کےچوترہ پرجہاں عیدین کی نمازہواکرتی تھی مسجد کرنا ، اوراس چبوترا کےتین جانب جوعیدگاہ کی موقوفہ زمین ایک حصہ ہےاس میں مدرسہ کا اورطلبہ کےلیے دارالاقامہ کا،نیز مدرسہ کےلیے کتب خانہ ودیگر ضروری عمارات کابنوانا بلاشبہ  شرعا جائز اوردرست ہے،پرانی عیدگاہ کی منتظمہ   کمیٹی جووقف بورڈ کی طرف سےمنظورہ شدہ اور اس کی مقرر کردہ ہے، اس کوپرانی عیدگاہ کی موقوفہ زمین میں مذکورہ  تعمرات  کاپورا حق ہے، البتہ وہاں  پرکرایہ کی  دوکانوں  کاتعمیرکرانا اورکرایہ پراٹھانا مناسب اورخلاف مصلحت ہے،کسی بھی درسگاہ کے تعمیرات  کاپورا حق ہے،البتہ وہاں پرکرایہ کی دوکانوں  کاتعمیر کرانا اور کرایہ پراٹھانا نامناسب اورخلاف مصلحت ہے، کسی بھی درسکا ہ کے قریب ہوٹل اوردوکانوں کاہونا اس کاطلبہ  پراچھا اثر نہیں پڑتا ، مدرسہ کوعام آدمی بالخصوس بازار اورہوٹل وغیرہ الگ کچھ دور ہونا چاہیے ،تجربہ اورمشاہدہ سےیہی ثابت ہے۔

پرانی عیدگاہ کی زمین پرمذکورہ تصرفات کےجواز کےلیے درج ذیل عبارات بغورملاحظہ کی جائیں :

’’إن الوقف إذا خرب وتعلطلت منافعه ، كدار انهدمت أوأرض خربت ،وعادت مواتا، ولم تمكن عمارتها ،أو مسجدا انتقل أهل القرية عنه ، وصار فى موضع لايصلى فيه، أو ضاق  بأهله ، ولم يمكن  توسيعه فى موضعه ، أوتشعب جميعه فلم تمكن عمارته ولا عمارة بعضه ، إلا ببيع بعضه ، جاز بيع بعضه لتعمربه بقيته ، وإن لم يمكن الانتقاع بشى منه ، بيع جميعه ، قال أحمد (بن حنبل ) فى رواية صالح : يحول السجد خوفا من الصوص  ، وإذا كان موضعه قذرا ، قال القاضى : يعني إذا كان  ذلك يمنع من الصلاة فيه ، ونص على جواز بيع عرصته فى رواية عبداله (بن احمد),

قال أبوبكر : وبالقول الأول أقول ، لإجماعهم على جواز بيع الفرص الحيس ،يعني : الموقوفة على الغزو، إذا كبرت فلم تصلح للغزو ، وأمكن الانتفاع بها فى شئ آخر ، مثل أن تدورفى الرحى ، أو يحمل عليها تراب ، أو تكون الرغبة فى نتاجها ، أو حصانا ينخذ للطراق فأنه يجوز بيعها  ويشترى بثمنها مايصلح للغزو ، نص عليه أحمد.

قال ابن قدامة " يدل على ماقال أحمد ماروى أن عمر رضى الله عنه كتب إلى سعد،لمابلغه أنه قد  نقب بيت المال الذى  بالكوفة ، انقل المسجد الذى بالتمارين ، واجعل بيت المال فى قبلة المسجد  ، فإنه لن يزال فى المسجد مصل ، وكان هذا بمشهد من الصحابة ولم يظهر خلافة، فكان  إجماعا ، ولأن فيما ذكرناه استبقاء الوقف بمعناه عند تعذر ابقائه بصورته ، فوجب ذلك ،،.    (المعني الابن قدامة 8/ 231-222باختصاروتصرف يسير )

ابن قدامہ مقدسی کومذکورہ عبارت سےمعلوم ہوتاہےکہ امام احمد اورحنابلہ کےنزدیک مسجد کا، یاکسی بھی موقوفہ زمین کاان کی بیا ن  کردہ صورتوں میں فروخت کرنا، اورحاصل شدہ قیمت کابدل کےطور پرکسی دوسرے دینی کام میں صرف کرنا،حضرت عمر ﷜ کے فرمان کی روشنی میں جائز اوردرست ہے،توسوال  میں مذکورپرانی عیدگاہ کی زمین پرمسجد اوردینی مدرسہ کابنانا اورمدرسہ  کی ضروریات کےلیے  مطلوبہ عمارات کابنوانا بدرجہ اولی جائز ہوگا ۔خلافا لمالك والشافعى ومحمدبن الحسن، والراجع عندنا قول الامام احمد رحمه الله .هذا ما ظهر لى والعلم عندالله .

املاه عبيدالله الرحمانى المباركفورى 4/1/1410ه/27/1990م  (سہ ماہی افکار عالیہ مؤ ناتھ بھنجن  ج : 4،ش :4رمضان تاذی القعدہ  1428ھ ؍ اکبوبر تادسمبر 2007 ء )

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ شیخ الحدیث مبارکپوری

جلد نمبر 1

صفحہ نمبر 194

محدث فتویٰ

تبصرے