السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
بفضلہ تعالیٰ ہمارے یہاں نئی مسجد زیر تعمیر ہے، اس کےلیے ہم صرف مسلمانوں سےچندہ فراہم کررہےہیں ۔غیر مسلم ہندومشرک سےہم چندہ نہیں لیتے ہمارے خیال ہے کہ ہندوؤں سےچندہ لے کرخانہ خدا تعمیر کرنا اسلام میں ہرگز جائز نہیں،کیوں کہ وہ ’’ انما المشرکون نجس ،، کےمصداق ہیں ۔ ایک مشرک ہندوہلیلہ کنڑاکٹر نے تعمیر مسجد فنڈ میں اپنے بیوپار میں سے مبلغ پچیس روپیہ کی رقم لاکردی ہےاور مصر ہےکہ یہ رقم مسجد فنڈ میں جمع کرکے اسے رسیددی جائے ۔ہم نےاسے رسید نہ دیتے ہوئے اس مسئلہ کاجواب علمائے کرام سےطلب کرکے جواب ملنے تک بطور امانت رکھی ہے۔
سوال یہ ہےکہ یہ رقم تعمیر مسجد کےکام میں لے کر اسے رسید ہم دے سکتےہیں یانہیں؟ اگر مسجد فنڈ میں لینا جائز ہےتو کیا مسجد کے متعلق دوسرے مدوں میں جوعبادت گاہ سےتعلق نہ رکھے ہوں مثلا مسجد کےکمپاؤنڈ کا حصار ،باغیچہ ، حوض یانمازیوں کی رفع حاجب کےلیے بیت الخلاء کی تعمیر ، مسافر خانہ وغیرہ میں خرچ کرسکتے ہیں اگر نہیں خرچ کر سکتے تو مسجد کےمتعلق بیت الخلاء کی تعمیر میں رقم خرچ کرنا جائز ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اگر یہ کنٹر اکٹر مسجد بنانے یا اس کی تعمیر میں چندہ سےامداد کرنے کوکارثواب سمجھ کرامداد کرنا چاہتا ہے، توجائز بیوپار سےحاصل شدہ کمائی میں اس کی یہ رقم فنڈ میں لی جاسکتی ہےورنہ نہیں ۔ پہلی صورت میں اگر اس سے چندہ لینا یاچند لے کررسید دینا کسی اسلامی مصلحت کےخلاف ہوتو نہ لی جائے کذا فی کتا ب الوصایا من ’’الہدایہ ،،مشرکین مکہ سےتعمیر بیت اللہ کوکارثواب سمجھ کرحلال کمائی سےاس کوتعمیر کرائی تھی،اورآنحضرت ﷺ نےان کی تعمیر سےنہ خود تعرض فرمایا ،اورنہ آئندہ کسی کوتعرض کرنے کی طرف اشارہ فرمایا ۔
عبیداللہ الرحمانی المبارکفوری المدرس بمدرسۃ دارالحدیث الرحمانیہ بدہلی
٭ 16؍مارچ 1981ء کےمرقومہ خط میں آپ نے دونئے سوال کئے ہیں ۔ایک قبروں کومنہدم کرکے ان مکانات تعمیر کرنے اورانہیں کرائے پراٹھائے جانےیافروخت کئے جانے کےبارے میں ہے اوردوسرا کسی مسجد کی پہلی تعمیر بدل کراس جگہ مسجد کی نئی تعمیر کے وقت اس کے مفاد کےلیے دکانیں بنوائے جانے کےبارے میں ہے۔
(1) پہلے مسئلہ کےمتعلق یہ غرض ہےکہ اگر یہ پرانا قبرستان ایسی جگہ پرہے
جہاں قریب میں کوئی مسلم آباد ی نہیں ہے،اور قبرستان کےبہت سےحصے پرغیر مسلموں نےقبضہ کرکے مکانات بنوالیے ہیں اوربقیہ کےمتعلق بھی یہی اندیشہ ہے،توپہلے کوشش اس بات کی کرنی چاہیے کہ پوراقبرستان واگزارکراکرچہاردیواری کےذریعہ محفوظ کردیا جائے۔ اوراگر یہ ممکن نہ ہوتوپھر وہاں پرمکانات بنواکران مکانات کوفروخت کردیا جائے یاانہیں کرایہ پراٹھادیا جائے ،اورحاصل شدہ کرایہ یافروخت سےحاصل شدہ قیمت دوسرے قبرستانوں کی حفاظت اوردیکھ بھال اورمرمت پرخرچ کی جائے۔
حنابلہ کےنزدیک جب موقوفہ جائداد معطل ہوجائے یعنی : اس سے منفعت مقصودحاصل نہ ہوسکے ، بلکہ بعض جائداد ہی کےضیاع کااندیشہ ہو، تواس جائدادکوفروخت کردینا اورحاصل شدہ قیمت سےدوسری جگہ مطلوبہ جائداد خریدلینا یادوسرے اوقات کی ضروریات میں اس کوخرچ کرنا جائز ہے۔اس سلسلہ میں حضرت عمرﷺ کاایک ارشاد بابت نقل بیت المال نقل کیاجاتا ہے۔(ملا حظہ ہوالمغنی لابن قدامہ )
(2)دوسرے مسئلہ کےمتعلق یہ عرض ہےکہ مسجد کی پہلی تعمیر موقوفہ زمین کے جتنے حصہ پرہوچکی ہے،اس میں سےکچھ حصہ مسجد کی نئی تعمیر کےوقت مسجد کے مفاد کےلیے دوکانیں بنوانے کےلیے علیحدہ کرنا ٹھیک نہیں ہے۔البتہ پہلی تعمیر میں جس جگہ وضو خانہ ، غسل خانہ ، پیشاب خانہ وغیرہ تعمیر ہوا ہے، مسجد کی نئی تعمیر کےوقت ان جگہوں کےنیچے یااوپردوکانیں اورکرایہ کےمکان بنوائے جاسکتے ہیں ،اس سلسلہ میں اس وقت کسی کتاب کاحوالہ یا اس کی عبادت نقل کرنے سےقاصرہوں ۔
عبیداللہ الرحمانی (مکاتیب شیخ رحمانی بنام مولانا محمدامین اثری ص :146؍147)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب