السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
تمباکو کی تجارت کےروپئے سےمسجد بنوائی اور اس میں نماز پڑھی ازشرع جائز ہےیا نہیں ؟ اگرنہیں تو کیا مسجد منہدم کردی جائے ؟جواب مدلل اورمحکم ہو۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
میرے نزدیک تمباکو کی تجارت مکروہ اورممنوع ہے، اس لیے اس کی تجارت سےحاصل شدہ روپیہ غیرطیب ہوگا ۔ پس ایسی غیر طیب کمائی سےمسجد تعمیر نہ کرائی جائے ۔ لیکن اگر لاعلمی اورمسئلہ سے ناواقفی کی وجہ سےایسے غیرطیب روپے سےمسجدبنائی گئی ہو، یا اپنی تحقیق میں تمباکو کےاستعمال اور اس کی تجارت کےغیرمکروہ ہونے کی بناء پر، اس کی تجارت کی کمائی کوحلال وطیب سمجھ کر اس کمائی سےمسجد بنوائی گئی ہو۔ تواس مسجد کےڈھانےومنہدم کرنے کی ضرورت نہیں ، ایسی مسجد میں میرے نزدیک نماز جائز اوردرست ہوگی نمازیوں کی نماز ہوجائے گی ہاں مسجدتعمیر کرانے والوں کوتعمیر مسجد سے ثواب نہیں ملے گا’’ الان الله طيب لا يقبل إلا الطيب ،،(بخارى كتاب الزكاة باب الصدقة من كسب طيب 3/113،مسلم كتاب الزكاة باب قبول الصدقة من كسب طيب (1015)2/703).
امور مندرجہ ذیل پرمکررسہ مکررغور کریں :
(1)تمباکو کی حرمت وکراہت پرعلماء کااتفاق نہیں ، اگرایک گروہ اس کوحرام وممنوع قراردیتاہے۔ تودوسرا گروہ اس کو صرف مکروہ کہتا ہےاوراس سےاجتناب کوفقط اولیٰ قرار دیتا ہے۔واليه ذهب شيخ مشائخنا العلامة سيد الاتقياء الحافظ عبدالله الغاريفورى رحمه الله تعالى ، اورتیسرا گروہ بلاکراہت حلا ل جانتا ہے وعليه أكثر علماء أهل الحديث فى زماننا ، ان دونوں گروہوں کےنزدیک اس کی تجارت جائز اوراس کی آمدنی وکمائی حلال ہوگی جس سےتعمیر مسجد درست اورجائز بلکہ موجب ثواب وباعث اجرہوگی ،اتنا شدید اختلاف ہو۔۔۔۔۔ مختلف فیہ کمائی سےتعمیر کردہ مسجد کامہندم ومسمار کرادینا بےمحل تشدد ہے، کسی چیز کےبارے میں علماء کا اختلاف معاملہ کونوعیت کوخفیف اورہلکا کردیتا ہے۔
عندالحنفیہ بحری جانوروں میں صرف مچھلی کا کھانا حلال ہےباقی حرام وممنوع ومکروہ ہےاوردیگر دوسرے ائمہ کےنزدیک دوسرے حیونات بحریہ بھی کھانے جائز ہیں ان کی تجارت بھی مباح اوردرست ہےجس سے تعمیر مسجد وغیرہ درست ہے،لیکن علمائےحنفیہ ایسی کمائی سےتعمیر کردہ مسجد کےانہدام کافتویٰ نہیں دیتے ،امام اسحاق بن راہویہ کےنزدیک تسمیۃ الوضو ء اواجب ہےلیکن اگرکوئی شخص عندالوضوء بسم الله على وجه التاويل چھوڑ دےتو ان کےنزدیک وضو کافی ہوجائےکا، سورہ فاتحہ پڑھنی مقتدی پرفرض ہےلیکن ہم حنفیہ کی نمازوں کوان کےمتاؤل ہونے کی وجہ سے باطل کہتے ہوئے ان کو تارک صلوۃ نہیں کہتے ، ولهذا أمثال ونظائر كثيرة لا تخفى لمن له ادنى تامل .
(2)یہ کمائی رنڈی اورسود خواری کی کمائی سےبری نہیں ہے ،اوراگر رنڈی یا سودخواریاہیچڑا ،اجرت زنا یاسودی روپئے یا تخنث کی کمائی سےمسجد تعمیر کرادیں تواس میں نماز جائز ہے كما صرح به شيخ مشائخنا الحافظ العلامة الغازيفورى فى مجموعة فتاواه القلمية اور اس کےمنہدم ومسما ر کرنے کی ضرورت نہیں كماصرح به شيخ مشائخنا الام السيدنذير حسين الدهلوى فى فتاواه المطبوعة ، پس تمباکو کی تجارت سےحاصل شدہ روپے سےتعمیر شدہ مسجد میں بھی نماز جائز ہوگی ۔
(3) ارشاد ہے: ’’ جلعت لى الأرض مسجد وطهور ا،، (بخارى كتا ب الصلاة باب قول النبى صلى الله عليه وسلم جلعت لى الارض مسجداوطهورا 1/113 )اس حدیث کاعموم چاہتا ہے مسجد مبحوث عنہ میں مسجد میں نما ز جائز ہو، بالخصوص جبکہ ایسی مسجد ان مقامات ومساجد میں داخل نہیں جن میں نماز پڑھنے سےمنع کیاگیا ہے.’’ عَنِ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى أَنْ يُصَلَّى فِي سَبْعَةِ مَوَاطِنَ: فِي الْمَزْبَلَةِ، وَالمَجْزَرَةِ، وَالمَقْبَرَةِ، وَقَارِعَةِ الطَّرِيقِ، وَفِي الحَمَّامِ، وَفِي مَعَاطِنِ الإِبِلِ، وَفَوْقَ ظَهْرِ بَيْتِ اللَّهِ ،، (ترمذى ابن ماجه – ترمذى كتاب الصلاة باب ماجاء فى كراهية مايصلى إليه وفيه (346)2/178،وابن ماجه كتاب المساجد باب المواضع التى تكره فيها الصلاة (746)1 / 246).
قال الشوكانى : ’’ وَاعْلَمْ أَنَّ الْقَائِلِينَ بِصِحَّةِ الصَّلَاةِ فِي هَذِهِ الْمَوَاطِنِ أَوْ فِي أَكْثَرِهَا تَمَسَّكُوا فِي الْمَوَاطِنِ الَّتِي صَحَّتْ أَحَادِيثُهَا بِأَحَادِيثَ: «أَيْنَمَا أَدْرَكَتْك الصَّلَاةُ فَصَلِّ» وَنَحْوِهَا وَجَعَلُوهَا قَرِينَةً قَاضِيَةً بِصِحَّةِ تَأْوِيلِ الْأَحَادِيثِ الْقَاضِيَةِ بِعَدَمِ الصِّحَّةِ. وَقَدْ عَرَّفْنَاك أَنَّ أَحَادِيثَ النَّهْيِ عَنْ الْمَقْبَرَةِ وَالْحَمَّامِ وَنَحْوِهِمَا خَاصَّةً فَتُبْنَى الْعَامَّةُ عَلَيْهَا وَتَمَسَّكُوا فِي الْمَوَاطِنِ الَّتِي لَمْ تَصِحَّ أَحَادِيثُهَا بِالْقَدْحِ فِيهَا لِعَدَمِ التَّعَبُّدِ بِمَا لَمْ يَصِحَّ، وَكِفَايَةِ الْبَرَاءَةِ الْأَصْلِيَّةِ حَتَّى يَقُومَ دَلِيلٌ صَحِيحٌ يُنْقَلُ عَنْهَا لَا سِيَّمَا بَعْدَ وُرُودِ عُمُومَاتِ قَاضِيَةٍ بِأَنَّ كُلَّ مَوْطِنٍ مِنْ مَوَاطِنِ الْأَرْضِ مَسْجِدٌ تَصِحُّ الصَّلَاةُ فِيهِ، وَهَذَا مُتَمَسَّكٌ صَحِيحٌ لَا بُدَّ مِنْهُ ،، (نيل الاوطار 2/144)انتهى.
اس استدلال کی رو سےثابت ہواکہ مسجد متنازع فیہ ومبحوث عنہ میں بوجہ اس کےکسی حدیث صحیح صریح سے ممنوع نہ ہونے کے نماز جائز ہے۔
(4) ارض مغصوبہ میں تعمیر مسجد درست نہیں لیکن نماز اس میں جائز ہے،’’الصلوة فى الارض المغصوبة جائزة ولكن يعاقب بظلمه ، فما كان بينه وبين العباد يعاقب ، كذا فى’’ مختار الفتاوى ، قال ابويوسف : إذا غصب أرضا فنبى فيها مسجدا او حماما او حانوتا ، فلا بأس بالصلوة فى فى المسجد ،، (عالمگیری ) ، وفى شرح المنية للمحلبى : ’’بنى مسجد ا فى أرض غصب لابأس بالصلوة فيه ، (ردالمحتار لابن عابدين الشامى ) .
قلت : فهكذا لا يجوز بناء المساجد بكسب التنباك وغيره من المفترات والمسكرات ،لكن لوبنى احدبذلك الكسب مسجدا ، لانقول ببطلان الصلوة فيه .
(5) قبول بمعنی صحت یعنی : براء ۃ ذمہ وسقوط اورقبول بمعنی ترتب ثواب میں تلازم نہیں ہے۔یعنی :براءۃ ذمہ ترتب ثواب کو مستلزم نہیں ہے كما يدل عليه حديث عدم قبول صلوة العبد الآبق پس حدیث ’’ إن الله طيب لايقبل إلا الطيب ،،كامعنى یہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ پاکیزہ وحلال کمائی کوقبول کرتا ہے یعنی: جائز اورمباح کمائی سےتصدق اوروقف وخیرات پرثواب عنایت فرماتا ہے، غیرحلال پرثواب نہیں بخشتا ۔اس حدیث سے زیادہ یہ ثابت ہوتاہے کہ غیرحلال کمائی سےخیرات صدقہ کرنے والےکواس صدقہ کاثواب نہیں ملےگا ، غیرحلال کمائی سے صدقہ کرنے کی ممانعت نہیں ثابت ہوتی اورنہ ایسی کمائی سےخرید ی ہوئی موقوفہ مسجد میں نماز کی ممانعت ثابت ہوتی ہے۔
(6) ایسی غیرطیب کمائی سےمسجد تعمیر کرنی مسجد بنانے والے کااپنا فعل ہے، اس کایہ فعل حدیث مذکورہ سےغیر صحیح وغیر مقبول ہوتو ہو، دیگر نمازیوں کا اپنا فعل یعنی اداء صلوة فى المسجد المذكور کیوں کر غیر مقبول وغیرصحیح ہوگا ،جب کہ یہ دونوں فعل دومختلف اشخاص کےہیں ۔ارشاد ہے:’’﴿وَلا تَزِرُ وازِرَةٌ وِزرَ أُخرىٰ...﴿١٦٤﴾...لأنعام
(7)مسجد دراصل وہ زمین ہے: جومسجد کےنام سے بغرض حفاظت ،چہاردیواری کےذریعہ گھیردی جاتی ہے،پس اگرزمین حلال وطیب کمائی سے خریدی جائے اوردیواریں وچھت وغیرہ غیرطیب سےبنائی جائیں ، توایسی زمین (مسجد ) میں اس کی دیواروں اورچھت کےغیر طیب کمائی سےتعمیر ہونے سے باعث نماز کیوں درست نہیں ہوگی ؟ جب کہ زمین جواصل مسجد ہےحلال کمائی سےخریدی گئی ہے، پس مسجد مبحوث عنہ کی زمین اگرتمباکو کوتجارت کےعلاوہ کسی اورحلال کمائی کی ہے تواس میں تونماز بلاشبہ جائز ہونی چاہیے ۔
(8) کسی معتبر شرعی دلیل سےیہ نہیں ثابت ہوتا کہ نفس جواز صلوۃ کےلیے محل صلوۃ کاطیب وحلال کمائی سےہونا ضروری ہے۔ كتبہ عبیداللہ المباکفوری الرحمانی المدرس بمدرستہ داالحدیث الرحمانیہ بدہلی
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب