سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(82)مسجد کے قریب قبرستان کا ہونا

  • 16068
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-17
  • مشاہدات : 760

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک مسجد شکستہ حالت میں ہےاور اس میں جمعہ کی نماز کےلیے سب نمازیوں  کوجگہ کی گنجائش نہیں ہے،اس لیے نئی مسجد تعمیر کرنے کا ارادہ ہے،مسجد کےاطراف  میں  اس کےمتصل قبریں ہیں ، قبریں بچوں اوربڑوں کی ہیں ۔پرانی بھی ہیں اورچندنئی ،مسجدکے اطرف کی قبریں مدفون طریقہ پرمسجد کی عمارت میں شامل کی جائیں اورمسجد کولوگوں کی ضرورت کےمطابق وسیع کیاجائے،تودوطرف کی قبریں مسجد میں شامل کرنے سےمسجد کافی وسیع ہوسکتی ہے،ایک طرف کی قبریں شامل کرکےنیونکالنے سےچند پرانی قبریں کھودنا پڑیں گی جن کےآج کوئی روثاء نظرنہیں آتے ،مسجد کےکمپانڈ میں اطراف کی قبروں کی جگہ چھوڑ کر دوسری کھلی جگہ ہے،مگراس جگہ مسجد کی آمدنی کےلیے ایک عمارت تعمیر کرنے کابعض لوگوں کا خیال ہےاس عمارت کوتجارتی کام میں لگا کراس کےکرایہ کی آمدنی سےمسجد کوفائدہ حاصل ہوگا ،اس لیے مسجد کومذکورہ بالاطریقہ سےوسیع کرنے کا خیال ہے،قبریں مدفون طریقہ سےمسجد میں شامل کی جائیں توقبروں کےورثاء ایسا کرنے پرراضی ہیں ۔

قبروں پرمسجد بنانے کی شریعت سےممانعت ہوتو سب لوگ اس خیال کویک لخت ترک کرکےمسجد کی اس جگہ پردومنزلہ عمارت تعمیر کرنے کی صورت پیش کرتےہیں،مگر دومنزلہ عمارت ہونےسےبارش کی زیادتی سبب اوپرکی منزل  کونقصان پہنچے گا، اس لیے دومنزلہ مسجد کی تعمیر کےلیے چند لوگ ناراض ہیں ،خدمت عالی میں استفتاء صرف یہ کہ مسجد کےاطراف کےقبریں اس میں شامل کرکے مسجد تعمیر کرنا شرعاً جائز ہےیانہیں ؟

قبروں کوشامل کرکے جومسجد بنے گی اس میں نماز پڑھنے سےقبروں کوسجدہ ہوگایانہیں۔ قبرستان میں نماز پڑھنا اور قبروں پرپاؤں رکھنا شرعاً بڑا گناہ ہے توکیا قبروں پرمسجد بننے سے قبروں کی بےحرمتی ہوگی  ؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

مسلمانوں قبروں میں جہاں مردے مدفون  ہیں مسجد بنانا درست نہیں ،نہ اورعمارت بنانا درست ہے،نہ قبروں کو اکھیڑنا  درست ہےاس میں مومن میت کی بے حرمتی ہے،قبر پرنماز پڑھنا اورقبر کی طرف نماز پڑھنا درست نہیں ۔

(1)’’ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَا تَجْلِسُوا عَلَى الْقُبُورِ، وَلَا تُصَلُّوا إِلَيْهَا أو عليها،، رواه مسلم (كتاب  الجنائز باب النهى عن الجلوس على القبر والصلاة عليه (972)2/668).

(2)’’ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّ أُولَئِكَ، إِذَا كَانَ فِيهِمُ الرَّجُلُ الصَّالِحُ، فَمَاتَ، بَنَوْا عَلَى قَبْرِهِ مَسْجِدًا، وَصَوَّرُوا فِيهِ تِلْكِ الصُّوَرَ، أُولَئِكِ شِرَارُ الْخَلْقِ عِنْدَ اللهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ،، رواه البخارى (كتاب الصلاة باب هل تنبش قبور مشركى الجاهلية 1/110)

(3)’’ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:’’ لَعَنَ اللهُ الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى، اتَّخَذُوا قُبُورَ أَنْبِيَائِهِمْ مَسَاجِدَ،، رواه البخارى  -(كتاب الصلاة باب هل تنبش قبور مشركى الجاهلية 1/110).

قبر پرعمارت بنانا تعظیما یاضرورۃ دونوں صورت ناجائز ہے،امام بخاری ﷫ باب  متعقدکرتے ہیں :’’  باب هل ينبش قبور مشركى الجاهلية ،، ’’فتح البارى (1/524)میں ہے:’’ أَيْ دُونَ غَيْرِهَا مِنْ قُبُورِ الْأَنْبِيَاءِ وَأَتْبَاعِهِمْ لِمَا فِي ذَلِكَ مِنَ الْإِهَانَةِ لَهُمْ بِخِلَافِ الْمُشْرِكِينَ فَإِنَّهُمْ لَا حُرْمَةَ لَهُمْ ،، فقط والله أعلم وعلمه أتم.

حررہ احمداللہ سلمہ غفرلہ از مدرسہ زبیدیہ نواب گنج ،دہلی مورخہ 21؍جمادی الاول 1359ھ الجواب  صحیح عبیداللہ المبارکفوری الرحمانی المدرس بمدرسۃ دارالحدیث الرحماینہ 

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ شیخ الحدیث مبارکپوری

جلد نمبر 1

صفحہ نمبر 184

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ