السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
باب تعمیر المساجد کی وضاحت
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
درصورت مسئولہ محتصر تریہ ہےکہ برابر ہے عمریا بکر تعمیر مسجد کرے یازاہد،بہرصورت مسجد عندالشرح ہرگز درست نہیں ،کیوں کہ اس زمین کاحصص مالک خالد ہے،بغیر اجازت اس کےہرگز مسجد تعمیر نہیں ہوسکتی۔
اگر تعمیر کرادیں گےتومغصوبہ ٹہرے گی اور مغصوبہ کوبموجب روایت فقہ ’’ ويجب ..... فى مكان غصبه ،،الخ كذا فى كنز الدقائق وغيره من كتب الفقه والدرالمختار.
زيد وغیرہ واپس کریں توفبہا ورنہ خالد اس تعمیر شدہ مسجد کےانہدام کرنے کامجاز رکھتاہے، اور اس بارہ میں خالد پرکسی قسم کااختلاف نہیں آتا کہ اس نےمسجد کومسمار کرڈالا ،کیونکہ یہ تعمیرشدہ مسجد ،مسجدہی نہیں ہےکیوں کہ اللہ مسجد غصب کی ہوئی جگہ پرعندالشرع حرام اورخبیث ہی تعمیر ہوئی ہے اوراللہ تعالیٰ عزوجل حرام کومتوجہ نہیں کرتا ،طیب کوقبول کرتا ہے’’ من أخذ شبراً من الارض ظلما، فإنه يطوقه يوم القيامة سبع أرضين ،، (رواه البخارى – کتاب بدء الخلق باب ماجاء فی سبع ارضین 3/74، کتاب المظالم باب اثم من ظلم شیئا من الارض 2؍100) عبدالسلام مباركپوری
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب