سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(426) اگر رضاعت کی تعداد میں شک ہو جائے

  • 16056
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 1062

سوال

(426) اگر رضاعت کی تعداد میں شک ہو جائے
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
میں چچا کی بیٹی سے شادی کرنا چاہتا ہوں مجھے اس سے بہت زیادہ محبت ہے اور وہ بھی مجھ سے محبت کرتی ہے لیکن  مشکل یہ ہے کہ اس کی والدہ نے بچپن میں مجھے دودھ پلایا ہے جب ہم نے اس کی والدہ سے رضعات کی تعداد کا پوچھا تو اس کا جواب تھا کہ مجھے یاد نہیں کیونکہ بہت مدت گزر چکی ہےتو کیا اس حالت میں میں اپنے چچا کی بیٹی سے شادی کر سکتا ہوں؟

الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

رضاعت سے حرمت دوشرطوں کے ساتھ ہوتی ہے۔

1۔پانچ یا پانچ سے زیادہ مرتبہ رضاعت ہوئی ہو۔(یعنی مختلف اوقات میں پانچ بار بچے کو دودھ پلایا ہو) اس لیے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   سے مروی ہے کہ:

"پہلے قرآن میں یہ حکم اتراتھا کہ دس مرتبہ دودھ پینے سے حرمت ثابت ہوتی ہے پھر یہ منسوخ ہوگیا اور یہ(نازل ہوا کہ ) پانچ مرتبہ دودھ پینا حرمت کا سبب ہے اور رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم   کی وفات ہوئی تو یہ قرآن میں پڑھا جاتا تھا۔"( مسلم 1452۔کتاب الرضاع باب التحریم بخمس رضعات موطا607/2۔ابو داؤد 2062۔کتاب النکاح باب ھل یحرم مادوں بخمس رضعات ترمذی 1150۔کتاب الرضاع باب ماجاء لا تحرم المصۃ ولا لمصتان نسائی 100/6۔ابن حبان 4207۔الاحسان) 

2۔یہ رضاعت دوبرس کے اندراندرہوئی ہو (یعنی بچے کی عمر کے پہلے دو برس میں) اس لیے کہ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم   سے ثابت ہے کہ آپ نے فرمایا:

"صرف وہی رضاعت حرمت ثابت کرتی ہے جو انتڑیوں کو کھول دے اور دودھ چھڑانے کی مدت (یعنی دوسال کی عمر ) سے پہلے ہو۔"(صحیح ،ارواء الغلیل 2150ترمذی 1152کتاب الرضاع باب ماجاء ماذکران الرضاعۃ لا تحرم الافی الصغردون الحولین نسائی فی الکبری 301/3۔ابن حبان 125۔المواد)

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ  نے اپنی صحیح میں بیان کیا ہے ۔

دو برس کے بعد رضاعت نہیں اس قول کے بارے میں باب اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے۔

"مکمل دو برس (کی مدت) اس کے لیے ہے جو مدت رضاعت مکمل کرنا چاہے۔

اور"رضعۃ "کی تعریف یہ ہے کہ بچہ ماں کے پستان کو ایک بار منہ میں لے کر دودھ پئے اور سانس لینے کے لیے یا پھر دوسرے پستان کی طرف منتقل ہونے کے لیے اسے خود ہی چھوڑ ے ۔اور جب یہ ثابت ہو جائے تو پھر رضاعت کے احکام لاگوہوں گے یعنی حرمت نکاح وغیرہ۔

اگر رضاعت کے باوجود یا پھر اس کی تعداد کے بارے  میں شک ہو کہ آیا عددمکمل ہوا ہے کہ نہیں تو اس صورت میں حرمت ثابت نہیں ہوگی اس لیے کہ اصل حرمت کا نہ ہو نا ہی ہے لہٰذا شک کی بنا پر یقین زائل نہیں ہو سکتا ۔( مزید دیکھئے المغنی لا بن قدامہ 312/1)

اس بنا پر اگر حرمت والی رضاعت ثابت نہ ہو سکے تو آپ  کی شادی جائز ہے۔

سائل کو میں یہ یاددلانا نہیں بھولوں گا کہ ہم پر واجب ہے کہ ہم شریعت کے مطابق چلیں اور حق کی اتباع کے مقابلے میں اپنی خواہشات کو چھوڑدیں۔نیز مسلمان پر ضروری ہے کہ وہ عفت و پاکدامنی اختیار کرتا ہواعشق و محبت سے دور ہے اور اس سے اجتناب کرے اور شریعت اسلامیہ کے مطابق نکاح کرکے اپنی عصمت کو محفوظ کرے۔(شیخ محمد المنجد)
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ نکاح و طلاق

ص516

محدث فتویٰ

تبصرے