میرے والد کی تنخواہ دس ہزارریال ہے جس میں سے ہم بہت ہی کم خرچ کرتے ہیں اور باقی میری والدہ جمع کر لیتی ہے۔اس لیے کہ میری بہن کی ابھی تک شادی نہیں ہوئی اور ہم ابھی تک پڑھائی سے بھی فارغ نہیں ہوئے میری دادی میرے ایک چچا کے گھر میں میری پھوپھیوں(جن میں سے دوکی شادی نہیں ہوئی اور ایک بغیر خاوند کے ہے)کے ساتھ رہتی ہے اور وہ ہماری طرح اچھی بھلی زندگی بسر کر رہی ہے۔
لیکن اس کے باوجود والد صاحب ان کی ما ہانہ معاونت کرتے ہیں اور انہیں خرچہ وغیرہ دیتے ہیں اور والد صاحب کے کھیت بھی ایک چچا کے کنٹرول میں ہیں جس کی آمدنی وہ خود ہی استعمال کرتے ہیں تو میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ میرے والد صاحب پر کتنا کچھ واجب ہے کہ وہ ماہانہ خرچ انہیں دیں آپ کے علم میں ہو نا چاہیے کہ وہ سب اچھی بھلی زندگی بسر کررہے ہیں اور ان سب کے بھائی اور بہنیں زیورات اور دیگر املاک کے بھی ہیں ۔قریبی رشتہ داروں پر خرچ کرنے کی دو قسمیں ہیں۔
1۔جسے عمومی یا اوپر والا نسب کہا جا تا ہے اور اس میں آباء و اجداد خواہ وہ کتنے ہی اوپر تک ہوں (مثلاً دادا پڑدادایا اس کے بھی اوپر)اسی طرح اولاد خواہ وہ کتنی ہی نیچے تک ہو سب شامل ہیں تو ان پر تین شرطوں کے ساتھ خرچ کرنا واجب ہے۔
1۔ان میں سے جس پر بھی خرچ کیا جا رہا ہے وہ فقیر ہواور کسی چیز کا مالک نہ ہو یا پھر جو کچھ اس کے پاس ہے وہ اس کے لیے کافی نہیں اور نہ ہی وہ کمانے کی طاقت رکھتا ہے۔
2۔خرچ کرنے والا خود غنی ہو اور اس کے پاس اپنی اور بیوی بچوں کی ضرورت سے زائد مال موجود ہو۔
3۔دین ایک ہو یعنی سب مسلمان ہوں۔
2۔مذکورہ بالا عزیز و اقارب کے علاوہ دوسرے غیر عمومی رشتہ داروں پر خرچ کرنا اس وقت واجب ہو تا ہے ان میں مذکورہ بالا شرائط کے ساتھ ساتھ درج ذیل شرط بھی پائی جاتی ہو۔
جس پر خرچ کیا جارہا ہے خرچ کرنے والا اس کا وارث بن سکتا ہو۔
لہٰذا اس بنا پر اگر آپ کے چچا اور والد خرچ کرنے کی طاقت رکھتے ہیں تو سب آپ کی دادی پر خرچ کر سکتے ہیں۔لیکن آپ احسان کے مسئلے کو نہ بھولیں اور پھر قریبی رشتہ دار پر صدقہ کرنا تو دوہرے اجر کا باعث ہے اس لیے کہ اس میں ایک تو صلہ رحمی ہے اور دوسرا صدقہ ہے جیسا کہ حدیث میں ہے کہ:
حضرت سلمان بن عامر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
"مسکین پر صدقہ کرنا صرف صدقہ ہے اور رشتہ دار پر صدقہ کرنے میں دوچیزیں شامل ہیں یعنی صدقہ اور صلہ رحمی۔" (صحیح ،صحیح ابن ماجہ 1494المشکاۃ1939۔ترمذی 658۔کتاب الزکاۃ باب ماجاء فی الصدقہ علی ذی القرابۃ ابن ماجہ 1844۔کتاب الزکاۃ باب فضل الصدقہ نسائی 2582۔احمد 17/4۔حمیدی 263/2۔ابن حبان 833الموراددارمی 397/1۔ابن ابی شیہ 47/4حاکم 407/1۔بیہقی 27۔7)
اور آپ اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان بھی یاد رکھیں۔
"اور تم جو بھی خرچ کرتے ہو اللہ تعالیٰ اس کے بدلے میں تمھیں اور زیادہ عطا کرتا ہے اور وہ اللہ ہی سب سے بہتر رزق دینے والا ہے۔"
لہٰذاقریبی رشتہ دارپر خرچ کرنا اور پھر والد پر تو بہت زیادہ باعث برکت ہے اور اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ اس کے ذریعے اپنی طرف سے اجرو ثواب بھی عطا فرماتے ہیں۔اس لیے آپ کو تو اس پر خوش ہو نا چاہیے کہ آپ کے والد اپنی والدہ اور بہنوں پر خرچ کرتے ہیں اور آپ انہیں اس پر مزید ابھاریں کہ وہ اور زیادہ خرچ کیا کریں اور آپ کے چچاؤں سے سبقت لے جانے کی کوشش کریں تاکہ ان سے افضل بن سکیں۔
رہا مسئلہ خرچ کرنے کی مقدار کے بارے میں تو اس کے متعلق ہماری گزارش ہے کہ یہ خرچ کرنے والے کی طاقت اور جس پر خرچ کیا جارہا ہے اس کی ضرورت کے مطابق ہے۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے۔