السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
عَنِ الْبَرَاءِ قَالَ : کَانَ رَسُوْلُ اﷲِﷺ صَلَّی نَحْوَ بَيْتِ الْمُقَدَّسِ سِتَّةَ عَشَرَ اَوْ سَبْعَةَ عَشَرَ ۔ الْحديث وفيه : فَصَلّٰی مَعَ النَّبِیِّ ﷺ رَجُلٌ ثُمَّ خَرَجَ بَعْدَ مَا صَلّٰی فَمَرَّ عَلٰی قَوْمٍ مِنَ الْاَنْصَارِ فِی صَلاَةِ الْعَصْرِ يُصَلُّوْنَ نَحْوَ بَيْتِ الْمُقَدَّسِ فَقَالَ : هُوَ يَشْهَدُ اَنَّهُ صَلَّی مَعَ رَسُوْلِ اﷲِ ﷺ وَأَنَّهُ تَوَجَّهَ نَحْوَ الْکَعْبَةِ فَتَحَرَّفَ الْقَوْمُ حَتّٰی تَوَجَّهُوْا نَحْوَ الْکَعْبَةِ ۔ ۱ہـ رَوَاهُ الْبُخَارِی فِی بَابِ التَّوَجُّهِ نَحْوَ الْقِبْلَةِ حَيْثُ کَانَ الخ مِنْ کِتَابِ الصَّلاَةِ؟
حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے بیت المقدس کی طرف سولہ یا سترہ ماہ نماز پڑھی ۔ پوری حدیث کتاب سے پڑھ لیں اور اس حدیث میں ہے کہ ایک آدمی نے نبی کریمﷺ کے ساتھ نماز پڑھی پھر وہ نماز پڑھ لینے کے بعد نکلا تو نماز عصر کے وقت میں انصار کی ایک قوم پر اس کا گزر ہوا وہ بیت المقدس کی طرف منہ کیے نماز پڑھ رہے تھے تو اس آدمی نے کہا کہ وہ خود گواہی دیتا ہے کہ اس نے رسول اللہﷺ کے ساتھ نماز پڑھی اور آپﷺ کعبہ کی طرف متوجہ ہو چکے ہیں تو انصار کی اس قوم نے اپنے منہ پھیر لیے حتی کہ کعبہ کی طرف متوجہ ہو گئے۔ (بخاری شریف ۔ کتاب الصلوۃ ۔ باب التوجہ نحو القبلۃ)
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اس حدیث سے پتہ چلا کہ نمازی امام یا مقتدی غیر نمازی کی نماز سے متعلق کوئی بات سن کر اس پر اسی نماز میں عمل پیرا ہو جائے تو شرعاً درست ہے لہٰذا امام قراء ت میں بھول جائے تو غیر نمازی اسے لقمہ دے اور وہ قبول کر لے تو یہ بھی درست ہوا۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب