اولاد کے درمیان عدل واجب ہے ہبہ میں بھی عدل ضروری ہے اولاد کو دیتے ہوئے کسی کو دینا اور کسی کو محروم کردینا یا کسی ایک کو دوسرے پر فضیلت دینا حرام ہے الاکہ اس کا کوئی سبب ہو تو پھر درست ہے مثلاً اگر اولاد میں سے کوئی ایک بیماریا اندھا یا معذور ہو یا اس کا گھرانہ بڑا ہو یا وہ طالب علم ہو وغیرہ تو ان وجوہات کی بنا پر اسے افضیلت دینے میں کوئی حرج نہیں۔
امام احمد رحمۃ اللہ علیہ نے اس طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے۔
اولاد میں سے کسی ایک کے لیے وقف کی تخصیص اگر کوئی ضرورت ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں لیکن اگر یہ کام اس کے ساتھ ترجیحی بنیاد پر کیا جارہا ہو تو میرے نزدیک ناپسندیدہ ہے۔
اور شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کا کہنا ہے۔
حدیث اور آثار اولاد کے درمیان عدل کے وجوب پر دلالت کرتے ہیں پھر یہاں اس کی دوقسمیں ہیں ۔
1۔ایک قسم تو وہ ہے جو اپنی بیماری اور صحت میں خرچہ کے محتاج ہوتے ہیں اس میں عدل یہ ہے کہ ہر ایک کو اس کی ضرورت کے مطابق دیا جائے اور کم اور زیادہ ضرورت مند کے درمیان کوئی فرق نہ کیا جائے ۔
2۔ایک قسم وہ ہے جس میں ان کی ضروریات مشترک ہیں یعنی عطیہ اور خرچہ یا شادی میں تو اس قسم میں کمی و زیادتی کرنے کی حرمت میں کوئی شک نہیں۔
ان دونوں قسموں کے مابین ایک تیسری قسم بھی بنتی ہے۔
وہ یہ کہ ان میں سے کسی ایک کو ایسی ضرورت درپیش ہو جو عادتاً پیش نہیں آتی مثلاً کسی ایک کی طرف سے قرض کی ادائیگی جو اس کے ذمہ کسی جرم کی وجہ سے واجب تھی (یعنی کسی بھی جسمانی تکلیف دینے کی وجہ سے مالی سزا کی ادائیگی )یا اس کا مہر ادا کیا جائے اور بیوی کا خرچہ دیا جائے تو اس صورت میں کسی دوسرے کو واجبی طور پر دینے میں غور و فکر کی ضرورت ہے( ابھی تک اس کے متعلق کوئی حتمی فیصلہ نہیں کیا جاسکا ) (واللہ اعلم)(شیخ محمد المنجد )