اگر سود حاصل کرنے والے شخص کی اولاد کے پاس کوئی اور ذریعہ معاش نہیں جس سے وہ اپنا پیٹ پال سکیں تو پھر والد کے سودی مال سے ان کا کھانا پینا اور کپڑے وغیرہ پہننا کوئی گناہ کاکام نہیں لیکن انہیں چاہیے کہ وہ اپنے والد کو ایسے طریقے سے نصیحت کریں جو فائدہ مند ہواور اگر ان کے پاس کوئی اور ذریعہ معاش پیدا ہو جائے یا پھر وہ اپنی ضروریات زندگی کے لیے اس مال کے محتاج نہ رہیں تو ان پر اس سود والے مال سے دور رہنا واجب ہے۔
شیخ ابن عثیمین رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں ۔
اگر والد کی کمائی حرام ہو تو اسے نصیحت کرنی واجب ہے اگر استطاعت ہوتو خود اسے نصیحت کریں یا پھر اہل علم کے تعاون سے اسے نصیحت کروائیں اور اسے اس کے حرام ہونے کا یقین دلوائیں یا پھر اپنے دوست احباب کا تعاون حاصل کریں جو اسے مطمئن کر سکیں تاکہ وہ اس حرام کمائی سے بچ جائے ۔اور اگر ایسا نہ ہو سکے تو پھر تمھارے لیے ضرورت کے مطابق وہ مال کھانا جائز ہے اور اس حالت میں اس کاتم پر کوئی گناہ نہیں مگر یہ صحیح نہیں کہ تم اس مال کو جائز سمجھتے ہوئے اپنی ضرورت سے بھی زیادہ لے لو۔( فتاوی اسلامیہ 452۔3)
اور اگر سود لینے والا والد فوت ہوجائے تو ورثاء پر ضروری ہے کہ وہ اس سودی مال سے چھٹکاراحاصل کریں اور اسے اس کے مالکوں کو واپس کردیں اگر ان کا علم نہ ہو تو اسے کسی بھی عام و خاص مصرف میں لاکر اس سے چھٹکارا حاصل کرلیں۔
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ سے سود کا لین دین کرنے والے کے بارے میں دریافت کیا گیا کہ وہ فوت ہو گیا ہے اور اس نے اپنے پیچھے مال اور اولاد چھوڑی ہے اور اولاد کو والد کے سودی کام کا بھی علم ہے تو کیا ان کے لیے یہ مال بطور وارثت حلال ہے یا نہیں ؟تو شیخ نے جواب دیا۔
بیٹے کو سود کی جس مقدار کا علم ہے وہ اسے نکال دے اور اگر ممکن ہو تو وہ لوگوں کو واپس کر دے اسے صدقہ نہ کرے اور جو باقی وراثت ہے وہ اس پر حرام نہیں لیکن جس مقدار میں شبہ ہو اس کے متعلق بہتر ہے کہ اسے چھوڑ دیا جائے اور اگر والد نے ایسے سودی معاملات سے وہ مال حاصل کیا ہو جس کی بعض فقہاء اجازت دیتے ہیں تو پھر ورثاء کے لیےاس سے نفع حاصل کرنا جائز ہے اور اگر مال میں حرام اور حلال دونوں کی ملاوٹ ہو اور اس کی مقدار کا علم نہیں تو اس کے دوحصے کر لینے چاہئیں (یعنی آدھا حلال کا اور آدھا حرام کا)( مجموع الفتاوی 307/29) (شیخ محمد المنجد)