السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ زید کہتاہے فٹ بال کھیلنا جائز ہے، کیونکہ کہ بہت سےعلمائے دین کھیلتے ہیں ، اورعمر کہتا ہے کہ فٹ بال کھیلنا مسلمانوں کوجائز نہیں ہے۔کیوں کہ یہ نصاری کاکھیل ہے۔اور حدیث میں وارد ہے:’’ من تشبه بقوم فهومنهم،، رواه ابوداؤد(ابوداؤد كتاب اللباس باب فى لبس الشهرة (4031)3/314 وهو حسن صحيح ابوداؤد 2/302)اور ایک حدیث میں ہےکہ ’’إن اليهود والنصارى لا يصبغون فخالفوهم،، (بخارى:كتاب الانبياء باب ماذكرعن بنى اسرائيل 4/143.صاحب تذکیر الاخواں نے اپنی کتاب میں ان دونوں حدیثوں کےترجمہ میں کچھ لکھا ہے،اس سے معلوم ہوتاہےکہ فٹ بال کھیلنا کسی صورت میں جائز نہیں ہے،کیونکہ زمانہ موجودہ میں مسلمان فٹ بال کھیلنے کی طرف اتنی جھک گئے ہیں کہ دین اوردنیا کچھ خیال نہیں رکھتے اورمشرکوں کی چال اختیار کرتے ہیں۔
عبداللہ مقام ہلائے جانا ضلع دینا جپور
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
پہلے اس حدیث کامطلب واضح کردینا مناسب معلوم ہوتاہے،جس سے فٹ بال کومسلمانوں پرحرام کرنا والا فریق استدلال کرتاہے۔علامہ امیریمانی سبل السلام 4؍273 میں حدیث ’’من تشبه بقوم فھومنھم ،، کی شرح میں لکھتےہیں:" والحديث يدل على أن من تشبه بالفساق كان منهم، أو بالكفار أو بالمبتدعة فى اى شئ مما يختصمون به،من ملبوس او مركوب اوهيئة" مطلب یہ ہےکہ :’’ اگرکسی مسلمان نے کافریابدعتی یافاسق وفاجر کی مشابہت اختیار کی ایسی چیز میں کہ وہ ان کےساتھ مخصوص ہو،ان کا شعار اورعلامت ہو، اوران کی امتیازی خصوصیات سےہو، خواہ وہ چیز لباس وپوشاک کی قسم سےہو،یا صورت وشکل اورسواری وغیرہ کی قسم سےہو،،۔اب اگر وہ چیز غیرمسلم قوم کادینی اشعارہے،یاوہ چیز فسق وفجور کی علامت ہے،توشرعاً حرام اورناجائز ہے۔اوراگر وہ چیز غیرمسلم قوم کامخص قومی اورملکی شعار ہے، توسیاسی اورتمدنی حیثیت سے اس کا اختیار کرنا مضر اورخلاف مصلحت ہےکیوں کہ ہرملک وقوم ، ملت ومذہب،تہذیب وتمدن کی چند ایسی خصوصیتیں ہوتی ہیں ،جو اس ملک وقوم کودوسروں سے ممتاز رکھتی ہیں اوراس پرقوم وتہذیب کی زندگی انہی امتیازی خصوصیات کےساتھ وابستہ ہوتی ہے۔اس بنا پرمسلمانوں کوغیرمسلم اقوام کےقومی وملکی امیتازی خصویات وشعار سےپرہیز کرناچائیے ۔
اگر وہ چیزیں ان کی امتیازی خصوصیات سےنہ ہوں ، توان کواختیار کرنےمیں کوئی حرج اور مضائقہ نہیں ہے،اور یہ مشابہت مذموم نہیں ہوں گی ۔پس اب دیکھنا یہ ہےکہ فٹ بال کی کیا حیثیت ہے؟، یہ توظاہر ہےکہ یہ کھیل انگریزوں کی دینی اورمذہبی شعارنہیں ہے،پس شرعی حیثیت سےناجائز اورممنوع نہیں کہا جاسکتا ۔اور یہ بھی کھلی ہوئی حقیقت ہےکہ یہ کھیل انگریزوں کاقومی اورتمدنی ملکی شعار بھی نہیں ہےبلکہ محض ایک طرح کی ورزش اورجسمانی ریاضت ہےجوان کوسوجھی ، جیسے :ہمارے ملک میں مختلف قسم کی ورزشیں رائج ہیں اور وہ فقط ہم کوسوجھی ،پس جس طرح ہمارے دیس میں بدن میں چستی پیدا کرنے اورصحت وتندرستی کوبرقرار رکھنے اوراس کےبہتر بنانے کی غرض سےورزش ،کسرت اورڈنڈ کی صد ہا قسمیں بنوٹ ،دوڑ ،گلی بلا،کشتی ،کلوخ اندازی وغیرہ وغیرہ۔ اوران کی مباح وجائز ہونےمیں کوئی شک وشبہ نہیں ہے۔اسی طرح ہر وہ کھیل وکسرت جس سے یہ غرض اورمقصد پوراہوتاہوجائز ومباح ہوگاخواہ اس کے موجد انگریزوں ہوں یافرانسیسی ،جرمن ہوں یا ایٹالین ،امیرکن ہوں یا چینی اورچاپانی ،بلکہ یہ کسرتیں اورورزش اگر جہاد کی تیاری کی جنسیت سےہوں تو مستحب اورباعث ثواب ہوں گی :" وأعدوا لهم ما التطعتم من قوة ،، (الانفال : 60)، اورآيت :’’ فاضربو فوق الأعناق واضربوا منهم كل بنان ،، (الانفال : 12) اور آنحضور ﷺکےرکانہ کا کوکشتی میں زمین پرگرانے اوربچھاڑنے ،آنحضورﷺ کے سامنےآپ کےحکم سےحضرت سمرہ اورحضرت رافع کی کشتی (جس میں سمرہ نےرافع کوبچھاڑ دیا تھا او رکشتی جیت گئےاور اس طرح ان کو جہاد میں شریک ہونے کی اجازت مل گئی تھی) ، آنحضور ﷺ کےحکم سےصحابہ کےدرمیان گھوڑدوڑ کامقابلہ ،اور اسی قسم کےبعض دوسرے واقعات کوسامنے رکھ کر غور کرو بہرحال فٹ بال ،والی بال ، ہاکی وغیرہ اور ورزش کی دوسری قسمیں جائز اورمباح ہیں بشرطیکہ کوئی دوسرا شرعی مانع اورعارض نہ پیدا ہوتاہو۔مثلا ً : جوا بازی ، فرائض دین سے غفلت ،بے ستری وغیرہ۔غرض یہ کہ جس طرح یورپ کی نئی نئی ایجادات ٹیلی فون ، ٹیلی ویثرن ،تاربرقی لاسلکی ،ریڈیو ، لاؤڈ سپیکر، ریل ،موٹر سائیکل ، مشین گن ،توب ، زہریلی گیس اوراس قسم کی دوسری ایجادات سےصحیح اورجائز استفادہ مباح اور بلاشبہ جائز ہےاوراس کااستعمال واختیار مشابہت مذمومہ نہیں ہے۔بالکل اسی طرح ان ورزشوں اورکھیلوں کااختیار کرنا مشابہت بالنصاری نہیں ہے۔بلکہ ان چیزوں کےاستعمال کوحدیث تشبہ میں داخل کرناغلو فی الدین ہےاور تحریم حلال ہےجس سے قرآن نےمنع فرمایا ہے۔
اسلام عالمگیر مذہب ہےہمیشہ باقی اورقائم رہنے والا دین ہے۔اس کو ہرملک وقوم کاساتھ دینا ہے،پس جس طرح غیرمسلم اقوام کی بیہودہ مضر چیزیں جائز نہیں ہوسکتیں، اسی طرح ان کی جائز اورمفید چیزیں ناجائز نہیں ہوسکتیں ۔نہ توا س کادائرہ بالکل تنگ ہے،جیسا کہ ناسمجھ اورتنگ نظر ولوگوں کاخیال ہے،اورنہ اس قدر وسیع ہےجیسا کہ نیچریوں اورملحدوں نےسمجھ رکھاہے ۔غرض یہ کہ افراط وتفریط سےالگ رہ کر اسلام کواس کی اصل اوربہتر صورت میں غیروں کےسامنے پیش کرناچائیے ۔
کتبہ :عبیداللہ المبارکبوری کفوری المدرس بمدرسۃ دارالحدیث الرحمانیہ بدہلی الجواب صحیح احمداللہ سلمہ غفرلہ مدرس مدرسہ دارالحدیث رحمانیہ دہلی مورخہ 11؍رجب1356ھ
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب