السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
انگریزی بال میرے نزدیک قزع میں داخل نہیں ہے۔صاحب مجمع البحار ج 3؍142 نےنہایۃً ( النھایۃ فی غریب الحدیث 4؍59)کے حوالہ سے ’’قزع،، کایہ معنی لکھاہے :’’ هو أن يحلق رأس الصبى ويترك من مواضع متفرقة ، تشبيها بقزع السحاب،اى قطعه المتفرقة،، .انگریزی بال رکھنا اس لیےمکروہ ہےکہ وہ حدیث مرفوع :’’ من تشبه بقوم فهم منهم ،، (ابوداؤد عن ابن عمر: كتاب اللباس باب فى الشهرة(4031)4/314) کےتحت آتا ہے۔اس حدیث کےعموم واطلاق کی روسے ان امور میں بھی تشبیہ ممنوع ومذموم ہےجوکسی غیرمسلم قوم کےامتیازی تعودی یامعاشرتی ہوں۔
امام احمد سے پوچھا گیاکہ گُدی کےبال منڈوانے کیسے ہیں ؟ ،فرمایا کہ : یہ تومجوسیوں کافعل ہے۔’’ ومن تشبه بقوم فهو منهم ،، (اقتضاء الصراط المستقيم)،خود قزع سے اس لیے منع کیا گیا ہےکہ وہ کافروں کاشعار ہے،علامہ طیبی فرماتے ہیں:’’ اجمعوا على كراهته ، إذا كان فى مواضع متفرقة ، إلا أن يكون لمداوة ، لأنه من عادة الكفرة،ولقباحته صورة،، انتهى- اس سے یہ بھی معلوم ہواکہ حدیث مذکورمیں تشبیہ بحیثیت مجموعی مرادنہیں ہے، بلکہ کسی ایک چیز یاجز میں بھی جوان کامذہبی یاقومی امتیازی شعار ہوتشبیہ پایا جائے وہ اس حدیث کی رو سے مکروہ وممنوع ہوگا۔عرصہ ہواایک رسالہ ’’ التشبیہه فی الاسلام ،، مصنفہ قاری محمد طیب صاحب دیوبندی نظرسےگذرا تھا، اس کا مطالعہ آپ کےلیے مناسب ہوگا۔ عبیداللہ رحمانی 25؍8؍1958ء (مکاتیب شیخ الحدیث مبارکپوری بنام محمدامین اثری صاحب ص : 63۔64)
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
یہ ٹھیک ہےکہ قیاس واجتہاد سےحرام ٹھہرائی ہوئی چیزیں اسی شخص کےلیے حرام ہوں گی ، جواس قیاس واجتہاد کوصحیح مانتاہویا اس مجتہد ومستبط کامقلد وپیروہو۔اسی طرح قیاس واستباط سےنکالےہوئے احکام کی خلاف ورزی اسی شخص کوگنہگار بنائے گی جواس کوصحیح سمجھتا ہویااس مجتہد کامقلد ہو۔ یہ بھی ایک حدتک صحیح ہےکہ جزوی تشبہ کی بنا پرہرکسی کوگہنگار ٹھہرانا یافاسق قرار دینا زیادتی ہے، لیکن یہ دعویٰ کہ جزئی تشبہ ممنوع نہیں ہےبلکہ صرف وہی تشبہ منہی عنہ سے جوبحیثیت مجموعی یعنی: من کل الوجوہ ہو، میرے نزدیک صحیح نہیں ہے۔اس لیے کہ حدیث تشبہ مطلق یاعام ہے۔اس میں کوئی غیرمسلم قوم کامخصوص شعار(مذہبی ہویاقومی ) اختیار کرنے سے جس کی وجہ سےان کےساتھ مشابہت پیدا ہوجائے ۔منع فرمایا گیا ہےخواہ مشابہت جزئی ہویاکلی ۔
اور من حیث المجموع مشابہت مراد ہونےکا جوقرینہ ذکرکیاگیاہے،یعنی :یہ کہ آں حضرت ﷺ نےرومی جبہ وکسروانی قبا زیب تن فرمائی ہے۔تویہ قرینہ نہیں بن سکتا،اس لیے کہ ان جزئی واقعات سےیہ ثابت نہیں ہوتاکہ یہ جبہ اورقبا وہاں کےلوگ استعمال بھی کرتے تھے۔اوربالفرض استعمال کرتے رہے ہوں تویہ ان کامخصوص مذہبی یاقومی شعار رہاہو ،اورجب تک یہ ثابت نہ ہو کہ یہ ان کامخصوص لباس تھااس وقت تک اس کو مذکورہ دعویٰ پربطور قرینہ کےپیش کرنا صحیح نہیں ہوسکتا۔ہوسکتاہے کہ یہ نسبت بلدی صنعت وایجاد کےاعتبار سےہو۔
اورنیز یہ معلوم ہےکہ مردکوعورت کےساتھ اورعورت کو مرد کےساتھ ’’تشبہ ،، سےمنع فرمایا گیا ہے، تو کیامرد کےلیے عورت کے ساتھ جزوی تشبہ جائز ہےاورممنوع محض تشبہ بحیثیت مجموعی ہے۔جس طرح مرد کاعورت کےساتھ اورعورت کا مرد کے ساتھ جزوی اورمجموعی ہرطرح کاتشبہ ممنوع ہے۔اسی طرح مسئلہ متنازع فیہا میں بھی جزوی اورکلی ہرقسم کاتشبہ منع ہوناچاہیے ۔
عبیداللہ رحمانی 5؍8؍1378ھ؍14؍2؍1959ء (مکاتیب شیخ الحدیث مبارکپوری بنام مولانا محمد امین اثری صاحب ص : 67؍68)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب