السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ایک شخص صاحب ہوش اورعیال دار ہےمگر اپنے والد کانافرمان ہے،نہ تواپنی بیوی کو خرچ دیتاہےاورنہ ہی اپنی اولاد کوپوچھتا ہےبلکہ ان کو تنگ کرتاہے۔باپ نےبوجہ شفقت اس کےبال بچوں کےنان نفقہ کوبوجھ اٹھایا ہوا ہے۔شخص مذکورصوم وصلوٰۃ کاپابند بھی ہےلیکن والد کانافرمان ہے، کیا ازروئے شریعت وہ نجات کامستحق ہے؟ حافظ عبدالمصور ۔امرتسر
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
ماں اور باپ کی اطاعت وفرمانبرداری جت تک وہ معصیت الہی کاحکم نہ دیں ،فرض اورضروری ہے،اوران کی نافرمانی گناہ کبیرہ ہے۔’’قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ألا انبئكم بأكبر ،الكبائر ، قلنا : بلى يارسول الله ، قال : الإشراك بالله وعقوق الوالدين ،، الحديث (بخارى : كتاب الأدب باب حقوق ا لوالدين بن الكبائر 2/ 77) یعنی :اللہ کاشریک ٹھرانا اورماں باپ کی نافرمانی عظیم ترین گناہ ہے،،۔
,, والعقوق : هو ايذاءهما بأى نوع كان من أنواع الأذى، قل أو كثر ، نهيا عنه، أو مخالفتمها فيما يأمران أوينهيان بشرط انتفاء المعصية فى الكل ،، (قسطلانى وغيره) بیوی،بچوں کاخرچ اوران کی خبر گیری شوہر کے ذمہ ضروری ہے’’وعلى المولود له رزقهن وكسوتهن بالمعروف ،،(البقره : 233) ,, وعاشروهن بالمعروف ،،(النساء :19)،,, فإمساك بمعروف أو تسريح بإحسان ،،(البقره : 229) ، ابوہریرہ سےروایت ہےکہ آنحضرت ﷺ فرماتےہیں :’’ وابدأ بمن تعول،تقول المرأة إما أن تطعمنى ، وإما أن تطلقنى، ويقول العبد أطعمنى واستعملنى،ويقول الا بن أطعمنى إلى أن تدعنى ،، (بخارى: كتاب التنفات باب وجوب النفقة على الأهل والعيال 6/189-219-كتاب التفسير (سورة الممتحنة ) باب ان جاءك المؤمنات يبايعنك 6/ 62.) ، پس صورت مسؤلہ میں شخص مذکورحقوق العباد ضائع کرنے یعنی ماں، باپ کی نافرمانی کرنے اوربیوی ،بچوں کاخرچ نہ دینے کی وجہ سے بہت بڑا ظالم اورگنہگار ہے۔
وہ مسلمان جوموحد کامل ہےاور جس نے کبھی کوئی گناہ نہیں کیا اورتمام فرائض دینیہ واعمال صالحہ پرآخرتک کاربند رہا، ایسے شخص کےلیے نجات اولی ہےیعنی وہ مرنے کےبعد عذاب قبروعالم برزخ وعذاب قیامت سے محفوظ رہے گا اور بلا خزحثہ ابتداءً جنت میں داخل ہوگا۔اسی طرح اس مسلمان موحد کےلیے بھی نجات اولی ہے، جس نے اپنی زندگی میں بڑے بڑے گناہ کاارتکاب کیا ،اورنیک عمل میں کوتاہی اورغفلت کی ، لیکن صحیح اورسچی توبہ کرکے مرا، ایسا مسلمان بھی ہرقسم کےعذاب سےمحفوظ رہ کرجنت میں داخل ہوگا۔(بفضل اللہ ورحمتہ ) ۔
وہ مسلمان موحد جس نے اپنی زندگی میں برے کام کئے اوراللہ تعالی کےحقوق اورانسانوں کےحقوق اداکرنے میں کوتاہی کی ،غرض یہ کہ نیک عمل میں غفلت کی اوربغیر سچی توبہ کے مرگیا،، ایسا شخص اللہ تعالی چاہے تو اس کوبغیر کسی قسم کے عذاب میں مبتلا کرنے کے ابتداًء جنت میں داخل کردے،یعنی :اس کوبھی نجات اولی حاصل ہوجائے (بفضلہ ورحمتہ ) اور اگر چاہے تو گناہوں کی اور اچھے عملوں کے چھوڑنے کی سزا دےکر بہشت میں داخل کرے، خواہ صرف عالم برزخ میں سزا دے اورقیامت کےعذاب سےمحفوظ رکھے، یاعالم برزخ اورقیامت دونوں جگہ عذاب میں مبتلا کیاجائے ،لیکن بہرصورت عذاب کی مدت معینہ ختم ہوجانے کےبعد اس کےلیے بھی نجات یقینی ہے(بفضلہ ورحمتہ).
صورت مسؤلہ میں شخص مذکورمرتکب گناہ کبیرہ ہے، اگر اپنے عمل کی اصلاح کرلے اورسچی توبہ کرکے مرے تواس کےلیے نجات اولی ہےاوراگر بغیر توبہ کےمرے گاتواللہ تعالی کی مشیت کےماتحت ہے۔إن شاء عذبه ، وإن شاء غفرله. ( محدث دہلی ج : 8ش :1؍ربیع الاول 1359ھ ؍مئی 1940ء)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب