یہ جو لفظ آپ کے شوہر نے بولے ہیں طلاق نہیں بلکہ ظہار ہے اس لیے کہ اس نے کہا ہے "تو مجھ پر میری ماں اور میری بہن کی طرح حرام ہے۔اور ظہار جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اس کا وصف بیان کیا ہے بری بات اور جھوٹ ہے ۔لہذا آپ کے شوہر پر واجب ہے کہ جو بھی اس نے کہا ہے اس کی اللہ تعالیٰ سے معافی مانگے اور اسکے لیے حلال نہیں کہ وہ آپ سے فائدہ اٹھائے جب تک وہ اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے کام نہیں کرلیتا۔اللہ تعالیٰ نے ظہار کے کفارے کے متعلق فرمایا ہے:
"جو لوگ ا پنی بیویوں سے ظہار کریں پھر ا پنی کہی ہوئی بات سے رجوع کرلیں تو ان کے ذمہ آپس میں ایک دوسرے کو چھونے(یعنی ہم بستری) سے پہلے ایک غلام آزاد کرنا ہے اس کے ذریعہ تم نصیحت کیے جاتے ہو اور اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال سے باخبر ہے۔ہا ں جو شخص(غلام آزاد کرنے کی طاقت) نہ پائے اس کے ذمہ دو ماہ کے روزے ہیں اس سے پہلے کہ ایک دوسرے کو ہاتھ لگائیں اور جو شخص کو یہ طاقت بھی نہ ہو اس پر ساٹھ مساکین کو کھانا کھلاناہے۔"
اس کے لیے حلال نہیں کہ وہ آپ کے قریب آئے یا آپ سے فائدہ اُٹھائے جب تک وہ اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے کام نہیں کرلیتا اور آپ کے لیے بھی حلال نہیں کہ آپ اسے اپنے قریب آنے دیں جب تک وہ اللہ تعالیٰ کے حکم پر عمل نہیں کرلیتا۔اور آپ کے گھر والوں کا اسے یہ کہنا ہے کہ اسے تیس مساکین کوکھانا کھلانا چاہیے غلط ہے درست نہیں۔کیوکہ جیساکہ آپ نے آیت سنی ہے کہ اس پر واجب یہ ہے کہ گردن آزاد کرے،اگر اس کی طاقت نہیں رکھتا تو دو ماہ کے پے در پے روزے رکھے اور اگر اس کی بھی طاقت نہیں رکھتا تو ساٹھ مساکین کو کھانا کھلائے۔
ایک گردن آزاد کرنے کا مطلب یہ ہے کہ کسی غلام(یا قیدی) کو چھڑائے،اسے غلامی سے آزاد کرائے۔دوماہ کے پے در پے روزے رکھنے کا مطلب یہ ہے کہ مکمل دو ماہ کے روزے رکھے،ان میں سے کوئی ایک روزہ بھی مت چھوڑے الا کہ کوئی شرعی عذر پیش آجائے مثلاً بیماری یاسفر وغیرہ اور جب عذر ختم ہوجائے دوبارہ وہیں سے باقی روزے رکھنا شروع ہوجائے جہاں سے چھوڑے تھے اور ساٹھ مساکین کو کھانا کھلانے کی دو کیفیتیں ہیں ،ایک یہ کہ یہ کسی جگہ پر کھانا رکھ دے اور مساکین کو وہاں کھانے کے لیے بلائے اور دوسری یہ کہ ان میں چاول اور دیگر وہ اشیاء جولوگوں کی عام خوراک ہیں ہر ایک کو گندم کے ایک مد اور اس کے علاوہ دوسری اشیاء کے نصف صاع (تقریباً سواکیلوگرام) کے حساب سے تقسیم کردے۔(شیخ ابن عثمین رحمۃ اللہ علیہ )