سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(387) کیا عورت شوہر کی وفات کی عدت کسی اور گھر میں گزار سکتی ہے؟

  • 15986
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 2735

سوال

(387) کیا عورت شوہر کی وفات کی عدت کسی اور گھر میں گزار سکتی ہے؟
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میرے سوال کا تعلق میری والدہ کی عدت سے ہے:

میرے والدین امریکہ کی سیر کے لیے گئے والد صاحب وہیں پر بیمار ہوگئے اور وفات  پاگئے۔اس وقت سے ابھی تک میری والدہ امریکہ میں اسی گھر میں رہائش پزیر ہیں جہاں وہ والد صاحب کے ساتھ رہتی تھیں اور یہ گھر  ہمارے ایک رشتہ دار کی ملکیت ہے۔

تو سوال یہ ہے کہ کیا میری والدہ پرعدت وہیں گزارنا واجب ہے یا اسکے لیے اپنے وطن پاکستان واپس آنابھی جائز ہے؟ معاملات کی پیروی کرنے کے لیے ان کا پاکستان آنا بہت  ہی اہم ہے۔

الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

خاوند کی وفات کے بعدعدت گزارنے والی عورت کا گھر میں رہ کر عدت گزارنے میں علمائے کرام کے دو قول ہیں۔ان میں سے مشہوراور قوی قول یہ ہے کہ وہ ا پنےخاوندکے گھر میں ہی عدت گزارے۔اکثر علمائے  کرام جن میں ائمہ اربعہ شامل ہیں کا یہی قول ہے ۔ان کے دلائل میں مندرجہ ذیل حدیث شامل ہے:

حضرت فریعہ بنت مالک رضی اللہ  تعالیٰ عنہا    سے مروی ہے کہ:

"اس کا شوہر اپنے بھاگے ہوئے غلاموں کی تلاش میں نکلا۔انہوں نے اسے قتل کردیا۔فریعہ رضی اللہ  تعالیٰ عنہا    کا بیان ہے  کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم   سے اپنے میکے لوٹ جانے کے متعلق دریافت کیا کیونکہ میرے شوہر نے اپنی ملکیت میں کوئی گھر نہیں چھوڑا اور نہ ہی نفقہ چھوڑا تھا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم   نے فرمایا،ہاں(تم اپنے میکے جاسکتی ہو)   جب میں حجرے میں پہنچی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم   نے مجھے آواز دی اور فرمایا،تم اپنے پہلے مکان میں ہی رہو جب تک کہ تمہاری عدت  پوری نہ ہوجائے۔فریعہ رضی اللہ  تعالیٰ عنہا    کا بیان ہے کہ پھر میں نے عدت کی مدت چار ماہ اور دس دن اس سابقہ مکان میں  پوری کی۔مزید فرماتی ہیں کہ جب حضرت عثمان رضی اللہ  تعالیٰ عنہ   خلیفہ تھے تو  انہوں نے کسی کو بھیج کریہ مسئلہ مجھ سے دریافت کیا،میں نے اسے بتادیا تو انھوں نے بھی اسی کے مطابق فیصلہ کیا۔"( صحیح ابوداود(2016) کتاب الطلاق باب فی المتوفی عنھا تتفل ابو داود(2300)  ترمذی(1204) کتاب الطلاق واللعان باب ماجاء ابن تعتد المتوفی عنھا زوجھا نسائی(6/199) موطا(2/591) حاکم(2/208) امام حاکم  رحمۃ اللہ علیہ  اور امام ذہبی رحمۃ اللہ علیہ  نے سے صحیح کہاہے۔)

فائدہ:

بعض اوقات عدت گزارنے والی عورت میں   یا پھر اس کے گھر میں کوئی ا ضطراری حالت پیدا ہوجاتی ہےمثلاً ڈر اور خوف،انہدام،غرق ،دشمن کاخوف، وحشت،وہ فاسق وفاجر لوگوں کے درمیان رہائش  پزیر ہو،اس کے ورثاء اسے وہاں سے لانے کاارادہ کریں یا پھر اس کا وہاں رہنا اولاد یا مال کے ضیاع کا باعث بن جائے وغیرہ۔

احناف،مالکیہ اور حنابلہ کے جمہور علماء کے ہاں اس حالت میں اس کے لیے وہاں سے اپنی مرضی کی رہائش میں منتقل ہوناجائز ہے۔اور اس کے لیے لازم نہیں کہ وہ اس کے قریب ہی رہائش اختیار کریں بلکہ وہ جہاں چاہے رہ سکتی ہے۔لیکن یہ شرط ہے  کہ اس دوسری رہائش میں بھی وہ ان احکام کی پابند کرےجن کی  پہلی رہائش میں کرتی تھی۔

اور جو عورت اس  گھر میں رہتے ہوئے کہ جہاں وہ اپنے خاوند کی وفات کے وقت موجود تھی،اپنے معاملات چلا سکتی ہوتو اس کے لیے وہاں سے کہیں اور منتقل ہونا درست نہیں کیونکہ اس کے پاس کوئی عذر نہیں مثلاً وہ وراثت اور املاک کے بارے میں کسی معتبر اور باعتماد شخص کو وکیل بناسکتی ہو وغیرہ۔اس بنا پر آپ کی والدہ جس گھر میں اپنے شوہر کی وفات کے وقت رہ رہی تھیں وہاں پرعدت گزار سکتی ہیں اور ان کے لیے اگر یہ ممکن ہے تو وہ وہیں عدت گزاریں۔(واللہ اعلم)(شیخ محمد المنجد)
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ نکاح و طلاق

ص473

محدث فتویٰ

تبصرے