خلع اصل میں بیوی کے مطالبے پر ہی ہوتا ہے اور بیوی کے مطالبے کے بعد خاوند کے علیحدگی پر راضی ہونے کو ہی خلع کہتے ہیں۔خاوند سے علیحدگی کرنے والی ہر عورت پر عدت واجب ہے خواہ خاوند نے اسے طلاق یا نسخ یا وفات کی وجہ سے چھوڑا ہو،لیکن اگر دخول سے قبل طلاق ہوئی ہوتو پھر عورت پر کوئی عدت نہیں اس لیے کہ فرمان باری تعالیٰ ہے:
"اے ایمان والو! جب تم مومن عورتوں سے نکاح کرو پھر انہیں چھونے(یعنی مباشرت) سے پہلے ہی طلاق دے دو تو ان پر تمہارا کوئی حق عدت نہیں جسے تم شمار کرو۔"
اور خلع کی عدت کے بارے میں صحیح یہی ہے کہ وہ ایک حیض عدت گزارے گی اس کی دلیل حدیث میں موجود ہے۔حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب ثابت بن قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیوی نے ان سے خلع لے لیاتو:
"نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے حکم دیا کہ وہ ایک حیض عدت گزارے۔"( صحیح ترمذی(946) ابو داود(2229) کتاب الطلاق باب فی الخلع ترمذی(1186) کتاب الطلاق اللعان باب ماجاء فی الخلع)
حافظ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ کا کہنا ہے کہ:
خلع حاصل کرنے والی عورت کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک حیض عدت گزارنے کا حکم دیاہے۔اس عورت پر تین حیض عدت نہیں بلکہ اسے ایک حیض بطور عدت گزارنا ہی کافی ہے۔جس طرح کہ حدیث میں واضح اور صریح موجود ہے ۔امیر المومنین عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،ربیع بنت معوذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ان کے چچا جو کبار صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین میں سے ہیں کا بھی یہی مسلک ہے اور ان کا کوئی مخالف بھی نہیں۔
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے غلام نافع رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے ربیع بنت معوذ بن عفراء رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سنا کہ وہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بتارہی تھیں کہ انہوں نے حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور میں اپنے خاوند سے خلع حاصل کرلیا تو اس کے چچا عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس آئے اور کہنے لگے کہ بنت معوذ نے آج اپنے خاوند سے خلع لے لیاہے تو کیا وہ(شوہر کے گھر سے اپنے گھر) منتقل ہوجائے؟تو عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جواب دیا کہ جی ہاں،وہ منتقل ہوجائے نہ تو ان دونوں کےدرمیان کوئی وراثت ہے اور نہ ہی ایک حیض کے سواکوئی عدت،صرف ایک حیض کے آنے تک وہ نکاح نہیں کرسکتی اور وہ اس لیے کہ کہیں اسے حمل ہی نہ ہو۔اس پر عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہنے لگے کہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہم سے زیادہ علم والے اور ہم سے بہتر تھے۔
اس کے ساتھ ساتھ کچھ اہل علم کا یہ بھی کہناہے کہ خلع والی عورت کی بھی مطلقہ کی طرح تین حیض عدت ہے۔امام ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ نے بڑے ہی احسن انداز میں ان کارد کرتے ہوئے کہاہے:
خلع طلاق نہیں اس کی دلیل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہم بستری کے بعد ہونے والی طلاق،جو اپنا عدد مکمل نہ کرسکے(یعنی تیسری طلاق نہ ہو بلکہ اس سے کم ہو) پر تین احکام مرتب کیے ہیں جو سب کے سب خلع میں نہیں پائے جاتے:
1۔خلع میں خاوند کو رجوع کاحق نہیں ہوتا جبکہ طلاق رجعی میں ہوتاہے۔
2۔طلاقوں کی تعداد تین ہے اور جب یہ عدد پورا ہوجائےگا عورت مرد کے لیے حلال نہیں رہے گی الا کہ وہ کسی اورمرد سے شادی کرے اور ہم بستری کے بعد اپنی مرضی سے وہ اسے طلاق دے دے تو پھر وہ پہلے شوہر سےنکاح کرسکتی ہے جبکہ خلع میں ایسا کچھ نہیں ہوتا۔
3۔طلاق میں عدت تین حیض ہے جبکہ ضلع کی عدت ایک حیض ہے۔
لہذا اس بناء پر ہم یہ کہیں گے کہ خلع لینےوالی عورت کی عدت اتنی ہی رہے گی جس پر حدیث رسول دلالت کرتی ہے اور وہ ایک حیض ہے۔(شیخ محمد المنجد)