شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ سے جب یہ سوال کیا گیا تو ان کا جواب تھا ۔امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک یہ شرط لازم نہیں اور امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے اسے لازم قراردیا ہے کہ جب بھی خاوند (دوسری ) شادی کرے گا ۔طلاق ہوجائے گی اور جب بھی وہ کوئی لونڈی حاصل کرے گا وہ بھی آزاد ہو جائے گی۔امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کا بھی یہی مسلک ہے۔
تاہم امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کے مسلک میں یہ طلاق واقع نہیں ہو گی اور نہ ہی لونڈی آزادہوگی لیکن جب وہ شادی کر لے یا پھر لونڈی رکھے تو پہلی بیوی کو اختیار ہے چاہے وہ اس کے ساتھ رہے یا اپنے خاوند سے علیحدگی اختیار کر لے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے۔
"وہ شرطیں سب سے زیادہ پورا کرنے کی حق دار ہیں جن کے ذریعے تم شرمگاہ حلال کرتے ہو۔"( بخاری 2721کتاب الشروط باب الشروط فی المہرعندعقدہ النکاح مسلم 1418۔کتاب النکاح باب الوفاء بالشروط فی النکاح احمد144/4۔ابو داؤد 2139۔کتاب النکاح باب فی الرجل یشترط لہا دارھانسائی 92/6۔ترمذی 1127۔کتاب النکاح باب ماجاءفی الشرط عند عقدۃالنکاح ابن ماجہ 1954۔کتاب النکاح باب الشرط فی النکاح عبد الرزاق 10613۔دارمی143/2۔ابو یعلی 1754۔بیہقی 248/7)
اسی طرح ایک مرد نے ایک عورت سے اس شرط پر شادی کی کہ وہ اس کی موجودگی میں دوسری شادی نہیں کرے گا پھر یہ معاملہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ تک لے جایا گیا تو انھوں نے فرمایا شروط سے حقوق ختم ہو جاتے ہیں۔
یوں اس مسئلے میں تین اقوال ہوئے
1۔اس سے طلاق ہوجائے گی۔
2۔اس سے نہ تو طلاق ہوگی اور نہ ہی بیوی کو علیحدگی کا حق حاصل ہوگا۔
3۔اس سے نہ توطلاق ہوگی اور نہ ہی لونڈی آزادی ہو گی لیکن بیوی نے جو شرط رکھی تھی اس کی وجہ سے اسے یہ حق حاصل ہے کہ وہ چاہے تو خاوند کے ساتھ رہ سکتی ہے اور چاہے تو علیحدگی اختیار کر سکتی ہےیہی قول سب سے بہتر اور عمدہ ہے۔( مزید دیکھئے الفتاوی الکبری 125/3) (شیخ محمد المنجد)