اصل میں طلاق مکروہ ہے لیکن بعض اوقات حالات کچھ ایسے پیدا ہو جاتے ہیں کہ طلاق کے بغیر کوئی چارہ ہی نہیں ہوتا بلکہ بعض اوقات تو معاملہ طلاق کے وجوب تک جاپہنچتا ہے تو جو حالات سائل نے ذکر کیے ہیں اس میں ممکن ہے کہ مناسب حل طلاق ہی ہو۔ اس لیے کہ خاوند کے بیوی پر جو حقوق ہیں ان میں یہ بھی شامل ہے کہ وہ اس کے والدین کی عزت و توقیر کرے اور پھر خاص کر ساس جو خاوند کی والدہ بھی ہے کیونکہ آدمی پر والدہ کا حق بیوی کے حق سے مقدم ہے اس لیے بیوی کو خاوند کی والدہ کا احترام و عزت کرکے اس کا مدد گار ثابت ہونا چاہیے۔
اہل علم نے ذکر کیا ہے کہ ضرورت کے وقت طلاق جائز و مباح ہے(یعنی جب اس کی ضرورت پیش آجائےمثلاً بیوی بد اخلاق ہو اس کا رہن سہن برا ہو بلا وجہ تکلیف پہنچاتی ہو وغیرہ وغیرہ تو طلاق دی جاسکتی ہے)( مزید دیکھئے : المغنی لابن قدامۃ 324/10) (شیخ محمد المنجد)