سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(355) بات بات پر طلاق اور طلاق کی قسم کھانا

  • 15952
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-19
  • مشاہدات : 1836

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
میرے خاوند نے طلاق کی قسم اٹھالی کہ میں میکے نہ جاؤں اور اب وہ اس سے رجوع کرنا چاہتا ہے تو کیا اس پر قسم کا کفارہ ہے؟

الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

مسلمان کو یہ چاہیے کہ وہ اپنے گھر یلو جھگڑوں میں طلاق کا لفظ استعمال نہ کرے اس لیے کہ طلاق کا انجام صحیح نہیں ہو تا۔ بہت سے لوگ طلاق کے معاملے میں سستی کرتے ہیں جب بھی ان کا کوئی گھر یلو جھگڑا ہوتا ہے فوراًطلاق کی قسم اٹھا لیتے ہیں یہ تو اللہ تعالیٰ کی کتاب سے ایک قسم کا کھیل ہے۔ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم   نے تو اکٹھی تین طلاقیں دینے والے کو کتاب اللہ کے ساتھ کھیلنے والا قراردیا ہے تو ایسے شخص کو کیا کہا جا ئے گا جو طلاق کو اپنی عادت ہی بنالے؟

حضرت محمود بن لبید  رضی اللہ  تعالیٰ عنہ   کی روایت میں ہے کہ:

"عن مَحْمُود بْن لَبِيدٍ قَالَ أُخْبِرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ رَجُلٍ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ ثَلاثَ تَطْلِيقَاتٍ جَمِيعًا ؟ فَقَامَ غَضْبَان ثُمَّ قَالَ : أَيُلْعَبُ بِكِتَابِ اللَّهِ وَأَنَا بَيْنَ أَظْهُرِكُمْ ؟! حَتَّى قَامَ رَجُلٌ وَقَالَ : يَا رَسُولَ اللَّهِ ، أَلا أَقْتُلُهُ ؟ "

"نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم   کو خبردی گئی کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو اکٹھی تین طلاقیں دے ڈالی ہیں آپ  صلی اللہ علیہ وسلم   غضب ناک ہوکر کھڑےہو گئے۔اور فرمایا کیا اللہ تعالیٰ کی کتاب سے کھیلا جارہا ہے جبکہ میں ابھی تمھارے درمیان موجود ہوں حتیٰ کہ ایک آدمی کھڑا ہوا اور اس نے عرض کیا اے اللہ کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم   !کیا میں اسے قتل کرڈالوں۔"( الطلاق باب الثلات المجموعۃ وما فیہ من التغلیظ)

شیخ ابن عثیمین رحمۃ اللہ علیہ  کا کہنا ہےکہ۔

یہ بے وقوف  لوگ جو اپنی زبانوں پر ہر چھوٹے اور بڑے معاملے میں طلاق طلاق کرتے پھرتے ہیں یہ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم   کی ہدایات کے سراسر خلاف ہے آپ  صلی اللہ علیہ وسلم   نے فرمایا ہے۔

"مَنْ كَانَ حَالِفًا فَلْيَحْلِفْ بِاللَّهِ أَوْ لِيَصْمُتْ "

"جو شخص بھی قسم اٹھانا چاہے وہ اللہ تعالیٰ کی قسم اٹھائے وگرنہ خاموش ہی رہے۔"( بخاری 2679۔کتاب الشہادات باب کیف یستحلف)

لہٰذا ہر مومن کو چاہیے کہ وہ جب بھی قسم اٹھائے صرف اللہ تعالیٰ کی ہی قسم اٹھائے اور اس کے یہ بھی لائق نہیں کہ وہ بکثرت قسمیں ہی اٹھاتا چلا جائے،اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے۔

﴿وَاحْفَظُوا أَيْمَانَكُمْ﴾اور اپنی قسموں کی حفاظت کرو۔"(المائدة:89)

اس آیت کی جو تفسیر کی گئی ہے وہ بالجملہ یہی ہے کہ کثرت سے اللہ تعالیٰ کی قسم نہ اٹھایا کرو۔

رہا مسئلہ یہ کہ طلاق کی قسم اٹھائی جاسکتی ہے یا نہیں مثلاً یوں کہا جائے کہ اگر تم یہ کرو تو طلاق اگر یہ نہ کرو تو طلاق یا پھر یہ کہے کہ اگر میں ایسا کروں تو میری بیوی کو طلاق اگر ایسانہ کروں تو میری بیوی کو طلاق اور اس طرح کے دوسرے کلمات وغیرہ تو یہ سب بھی نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم   کی ہدایت و رہنمائی کے خلاف ہے۔(مزید دیکھئے : فتاوی المراء المسلمۃ853/2)

دوسری بات یہ ہے کہ:

اس سے طلاق واقع ہوتی ہے کہ نہیں تو اس میں خاوند کی نیت کا دخل ہے اگر اس نے طلاق کی نیت کی اور بیوی کو قسم دی کہ وہ ایسا کام نہ کرے تو بیوی کے وہ کام کرنے سے طلاق واقع ہو جائے گی اور اگر وہ طلاق کی نیت نہیں کرتا بلکہ اس سے صرف اسے روکنے کی نیت تھی تو اس کا حکم صرف حکم کا ہو گا ۔

شیخ ابن عثیمین رحمۃ اللہ علیہ  کا کہنا ہے کہ:

راجح بات یہ ہے کہ جب طلاق کو قسم کی جگہ پر استعمال کیا جائےیعنی اس کا مقصد یہ ہوکہ کسی کام کے کرنے پر ابھارنایا کسی کام سے منع کرنا یا کسی کام کی تصدیق یا تکذیب کرنا یا کسی بات کی تاکید کرنا وغیرہ تو اس کا حکم بھی قسم جیسا ہی ہے اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے۔

﴿يـٰأَيُّهَا النَّبِىُّ لِمَ تُحَرِّ‌مُ ما أَحَلَّ اللَّهُ لَكَ تَبتَغى مَر‌ضاتَ أَزو‌ٰجِكَ وَاللَّهُ غَفورٌ‌ رَ‌حيمٌ ﴿١ قَد فَرَ‌ضَ اللَّهُ لَكُم تَحِلَّةَ أَيمـٰنِكُم...﴿٢﴾... سورة التحريم

"اے نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم   !تم اللہ تعالیٰ کی حلال کردہ اشیاء کو حرام کیوں کرتے ہو۔ تم اپنی بیویوں کی رضامندی چاہتے ہو اللہ تعالیٰ بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے تمھاری قسموں کا کفارہ مقرر کر دیا ہے۔"

یہاں اللہ تعالیٰ نے تحریم کو تسلیم قرار دیا ہے اور نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم   کا بھی فرمان ہےکہ:

"إِنَّمَا الأعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ"

"عملوں کا دارو مدار صرف نیتوں پر ہے۔"( بخاری (1)کتاب بداء الوحی)

اور یہ قسم اٹھانے والا طلاق کی نیت تو نہیں کر رہا اس نے قسم کی نیت کی ہے یا پھر قسم کا معنی مراد لیا ہے تو اگر وقسم توڑتا ہے تو اسے قسم کا کفارہ ادا کرنا ہی کافی ہے۔ اس مسئلے میں راجح قول یہی ہے۔( مزید دیکھئے فتاوی المراء المسلمۃ 754/2)

سعودی مستقل فتوی کمیٹی سے سوال کیا گیا کہ جو شخص اپنی بیوی کو یہ کہے کہ میرے ساتھ اٹھوو گرنہ طلاق تو کیا اس سے طلاق واقع ہو جائے گی؟تو کمیٹی نے جواب دیا:

اگر آپ کی اس سے طلاق کی نیت نہیں تھی بلکہ صرف اپنے ساتھ لے جانے کے لیے ابھارنا مقصود تھا تو اس سے طلاق واقع نہیں ہو گی ۔علماء کے صحیح قول کے مطابق اس پر آپ کو (قسم کا) کفارہ ادا کرنا پڑے گا ۔اور اگر آپ نے اس سے طلاق مراد لی ہے تو اس پر ایک طلاق واقع ہو جائے گی۔( فتاوی اللجنۃ الدالمۃ للبحوث العلمیۃ والافتاء 86/20) (شیخ محمد المنجد)
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ نکاح و طلاق

ص436

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ