السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
حافظ صاحب میں گناہ گار آپ کی ایک مناظرانہ خط وکتابت پڑھ رہا تھا جو کہ آپ کے اور جناب محمد صالح صاحب کے درمیان ہوئی تھی جو کہ ایک کتاب کی شکل میں حضرت مولانا محمد خالد گھرجاکھی صاحب نے چھپوا کر عوام کے سامنے پیش کر دی ہے ۔ جو ۱۹۸۴کا واقعہ ہے ۔ محمد صالح صاحب کے مکتوب نمبر ۳ ۔ ۲۸ فروری میں سوال نمبر ۱ میں اس نے پوچھا ہے کہ نماز میں سینے پر یا زیر ناف ہاتھ باندھنا فرض ہیں یا واجب یا سنت مؤکدہ ۔ اسی طرح آمین کہنا؟
تو آپ نے جواب دیا تھا نماز میں سینے پر یا زیر ناف ہاتھ باندھنا قرآن وحدیث کی روشنی میں نہ فرض ہیں نہ واجب اور نہ ہی سنت مؤکدہ ۔ ہاں آمین کہنا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے قولاً اور فعلاً ثابت ہے ۔
حافظ صاحب اگر ہاتھ باندھنا سینے پر یا زیر ناف سنت بھی نہیں تو ہم اور آپ کس کی سنت پر عمل کر رہے ہیں؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
جس بات کی آپ وضاحت طلب فرما رہے ہیں اس سلسلہ میں گذارش ہے کہ آپ میرے الفاظ ’’سینے پر یا زیر ناف ہاتھ باندھنا‘‘ الخ پر ذرا توجہ فرمائیں نیز لفظ ’’یا‘‘ اور لفظ ’’اور‘‘ دونوں کے فرق کو ملحوظ رکھیں تو آپ بات سمجھ جائیں گے ان شاء اللہ تعالیٰ ۔
اس عبارت میں مطلق ہاتھ باندھنے کے فرض ، واجب اور سنت مؤکدہ ہونے کی نفی نہیں اس عبارت میں سینے پر اور زیر ناف ہاتھ باندھنے دونوں صورتوں کے فرض واجب اور سنت مؤکدہ ہونے کی بھی نفی نہیں اس عبارت میں تو سینے پر اور زیر ناف ہاتھ باندھنے دونوں صورتوں میں سے صرف اور صرف ایک صورت کے فرض واجب اور سنت مؤکدہ ہونے کی نفی ہے ۔اس مسئلہ کی تفصیل کے لیے میرا اس موضوع پر رسالہ اردو بازار سے لے کر مطالعہ فرما لیں اللہ تعالیٰ ہر ایک کو نیکی کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب