سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(351) عورت طلاق چاہتی ہے مگر شوہر نہیں دیتا

  • 15948
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 1086

سوال

(351) عورت طلاق چاہتی ہے مگر شوہر نہیں دیتا
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میری ایک بہن شادی شدہ ہے لیکن ابھی تک اس کے خاوند  نے اس کے ساتھ دخول نہیں کیا ۔ حالات درست تھے لیکن اچانک میری بہن نے یہ کہناشروع کردیا کہ وہ اپنے خاوند کے ساتھ زندگی نہیں گزار سکتی اس لیے کہ اب وہ اس سے محبت نہیں کرتی وہ دونوں ابھی تک اکٹھےایک گھر میں میاں بیوی کی طرح نہیں رہے۔ جب اس کے خاوند نے یہ بات سنی کہ (اس کی بیوی اس سے طلاق چاہتی ہے) تو وہ انتقاماًاسے طلاق دینے سے انکار کر رہا ہے میری بہن مصر ہے کہ وہ اس کے ساتھ زندگی نہیں گزار سکتی اور خاوند مصرہے کہ وہ طلاق نہیں دے گا۔

ہم نے بہن کو کہا ہے کہ تم اس سے کسی شرعی عذر کے بغیر طلاق نہیں لے سکتی لیکن اس کا کہنا ہے کہ اس کا خاوند بہت جلد غصہ میں آنے والا اور راز افشاں کرنے والا ہے آپ کو یہ علم ہو نا چاہیے کہ ابھی تک وہ ایک گھر میں اکٹھے نہیں رہے اور اس کا خاوند بھی یہ اعترا ف کرتا ہے کہ وہ اپنی اصلاح کرلے گا تو اب آپ بتائیں کہ اس مشکل کا شرعی حل کیا ہے؟

الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اگر خاوند بیوی کے شرعی حقوق کی ادائیگی کرتا ہے تو بیوی کا خاوند سے طلاق کا مطالبہ حرام ہے اس لیے کہ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم   کا فرمان ہے۔

"جو کوئی عورت بغیر کسی سبب کے اپنے شوہر سے طلاق کا مطالبہ کرتی ہے اس پر جنت کی خوشبو بھی حرام ہے (یعنی وہ جنت کی خوشبو بھی نہیں پائے گی)۔"(صحیح :ارواء الغلیل 2035۔صحیح الجامع الصغیر 2706۔ابو داؤد 2226۔کتاب الطلاق باب فی الخلع ترمذی 1187۔کتاب الطلاق واللعان ۔باب ماجاء فی المختلعات ابن ماجہ 2055کتاب الطلاق باب کراھیہ الخلع للمراۃ احمد 277/5۔دارمی 162/2ابن المحارود748۔ابن حبان 4184۔بیہقی 316/7)

نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم   کے فرمان "بغیر کسی سبب کے" کا معنی یہ ہے کہ کسی ایسی سختی اور تکلیف کے بغیر جو طلاق تک لے جائے ۔مگر جب بیوی مجبور ہو جائے اور خاوند اس کے حقوق کی ادائیگی میں کو تا ہی کرے یا اس کا اخلاق صحیح نہ ہو یا اس کے علاوہ کوئی اور سبب ہو تو بیوی طلاق طلب کرسکتی ہے اسے چاہیے کہ اپنا معاملہ قاضی کے پاس لے جائے اور اس کے سامنے ساری وضاحت کرے اور قاضی یا تو خاوند سے حقوق کی ادائیگی کروائے یا پھر اسے طلاق دینے کا کہے۔اور اگر خاوند میں اخلاق قبیحہ کا انکشاف ہوتو فوری طور پر طلاق کا مطالبہ نہیں کرنا  چاہیے بلکہ بیوی کوچاہیے کہ اسے محبت بھرے انداز میں نصیحت کرے اور اس کے برے اخلاق کو اخلاق حسنہ کے ساتھ بدلنے میں اس کا تعاون کرے۔

پھر یہاں تو خاوند خود اعتراف کر رہا ہے کہ وہ غلط ہے اور وہ اپنی اصلاح کا وعدہ بھی کررہا ہے جو خاوندکی جانب سے ایجابی قدم ہے لہٰذا عورت کو اس سلسلے میں اپنے خاوند کا خیر پر معاون ہونا چاہیے اور اگر ہر عورت اپنے خاوند کے جلد غصہ میں آنے یا پھر آپس کی باتوں کو دوسروں کے سامنے بیان کرنے یا اس طرح کی کسی اور غلطی کی وجہ سے طلاق کا مطالبہ شروع کردے تو پھر کوئی بھی علیحدگی سے نہ بچ سکے اور ان کی اولاد بھی ٹھوکریں کھاتی پھرے۔(شیخ محمد المنجد)
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ نکاح و طلاق

ص433

محدث فتویٰ

تبصرے