اولاً میں اپنے اس سائل اور دیگر مسلمان بھائیوں کو یہ نصیحت کرتا ہوں کہ وہ غصہ نہ کریں کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی وصیت فرمائی ہے۔ ایک آدمی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہو کر عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !مجھے کوئی وصیت کیجئے ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لاَ تَغْضَبْ."غصہ نہ کر۔"
اس نے کئی بار اپنی بات دہرائی مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب میں صرف یہی فرمایا کہ غصہ نہ کر۔( بخاری 6116۔کتاب الادب باب الحلد من الغضب)
اور غصہ ایسا انگارہ ہے کہ جسے شیطان آدم کے بیٹے کے دل میں ڈال دیتا ہے حتیٰ کہ اس کی آنکھیں سرخ ہو جاتی ہیں رگیں پھول جاتی ہیں اور اس سے ایسے اقوال و افعال صادر ہونے لگتے ہیں جن کا وہ ارادہ نہیں رکھتا ۔لہٰذا آدمی کو چاہیے ۔کہ وہ اطمینان و سکون لازم پکڑے۔
دوسری بات یہ ہے کہ جب یہ ثابت ہے کہ جس وقت آپ نے طلاق دی تھی تو آپ کو( شدید غصے کی وجہ سے) علم ہی نہیں تھا کہ آپ کیا کہہ رہےہیں تو یقیناً پھر طلاق واقع نہیں ہو گی۔ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے۔
"اغلاق (یعنی عقل پر پردی ڈال دینے والے شدید غصے) میں طلاق نہیں ہوتی۔(حسن صحیح ابو داؤد 1919۔کتاب الطلاق باب فی الطلاق علی غلط ارواء 2047۔ابو داؤد 2193۔احمد 276/6۔بخاری فی التاریخ الکبیر171/1۔ابن ماجہ 2046۔ کتاب الطلاق باب طلاق المرہ والناسی مستدرک حاکم 198/2۔ کتاب الطلاق باب لاطلاق والا عتاق اغلاق بیہقی 357/7۔ کتاب الطلاق باب ماجاء فی طلاق المکرہ ابن ابی شیۃ 49/5دارقطنی 36/4۔ابو یعلی 421/7۔۔4444۔امام حاکم رحمۃ اللہ علیہ نے اس روایت کو مسلم کی شرط پر صحیح کہا ہے) (شیخ ابن عثیمین)
شیخ عبدالرحمٰن سعدی رحمۃ اللہ علیہ سے غصے کی حالت میں طلاق کے متعلق دریافت کیا گیا تو ان کا جواب تھا۔
غصے کی حالت میں طلاق واقع ہو جاتی ہے کیونکہ طلاق (محبت میں نہیں بلکہ ) غصے کی حالت میں ہی ہوتی ہے البتہ اگر (غصہ اتنا شدید ہوکہ) وہ غصےکی وجہ سے تمیز و عقل کھوبیٹھے تو وہ مجنون (یعنی پاگل) کے حکم میں ہوگا اور صحیح قول کے مطابق اس کی طلاق واقع نہیں ہو گی۔(شیخ عبد الرحمٰن سعدی)
شیخ صالح فوزان حافظہ اللہ نے اس طرح کے سوال کے متعلق فرمایا ہے۔
جب انسان کی غصے کی حالت اس حد تک پہنچ جائے کہ اس کا شعورختم ہوجائے اور وہ یادواشت کھوبیٹھے اس طرح کہ نہ وہ کچھ جان سکتا ہواور نہ ہی کچھ تصور کر سکتا ہوتو ایسی صورت میں نہ اس کے اقوال کا کوئی اعتبار ہے اور نہ ہی طلاق وغیرہ ہو گا۔(شیخ صالح فوزان)