سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(343) طلاق کے لیے بیوی کی موجودگی یا اسے علم ہونا شرط نہیں

  • 15940
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1097

سوال

(343) طلاق کے لیے بیوی کی موجودگی یا اسے علم ہونا شرط نہیں
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
میری طلاق کو تین برس ہوچکے ہیں اور سب معاملات وکیل کے ذریعے مکمل ہوئے تھے میرے سابقہ خاوند نے بات چیت سے انکار کردیا تھا۔میں یہ جاننا چاہتی ہوں کہ اس نےاب تک مجھے طلاق کا ایک کلمہ تک نہیں کہا،اب کچھ لوگ مجھے یہ کہتے ہیں کہ اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ میرے سامنے طلاق کا لفظ بولے۔میری گزارش ہے کہ آ پ اس کی وضاحت کریں کیونکہ مجھے اس سے بہت   پریشانی ہے؟

الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

طلاق کے لیے یہ کوئی شرط نہیں کہ خاوند ا پنی بیوی کے سامنے طلاق کے الفاظ کہے اور نہ ہی یہ شرط ہے کہ بیوی کو اس کا علم ہو۔جب کبھی  آدمی نے طلاق کے الفاظ بولے یا طلاق لکھ دی تو طلاق صحیح ہوگی اگرچہ اس کا بیوی کو علم نہ بھی ہو۔اگر آپ کے خاوند نے طلاق کے سارے معاملات وکیل کے پاس مکمل کیے ہیں تو یہ طلاق صحیح ہے اور واقع ہوچکی ہے۔

شیخ ابن عثمین  رحمۃ اللہ علیہ  سے پوچھا گیا کہ:

ایک آدمی اپنی بیوی سے لمبے عرصے تک غائب رہا اور اسے طلاق دے دی جس کا علم صرف اسے ہی ہے اور اگر وہ اپنی بیوی کو نہ بھی بتائے تو کیا یہ طلاق واقع ہوجائے گی؟شیخ  رحمۃ اللہ علیہ  کا جواب  تھا:

طلاق واقع ہوجائے گی اگرچہ وہ اپنی بیوی کو اس کا نہ بھی بتائے۔اگر کوئی آدمی یہ کہہ دے کہ میں نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی تو اس سے اس کی بیوی کو طلاق ہوجائےگی خواہ بیوی کو اس کا علم ہویا نہ ہو۔اس بنا پر فرج کریں کہ اگر عورت کوطلاق کا علم تین حیض گزرجانے کے بعد ہوتو اس کی عدت پوری ہوچکی ہوگی حالانکہ اسے اس کا علم ہی نہیں تھا۔اسی طرح اگر  کوئی آدمی فوت ہوجائے اور اس کی بیوی کو خاوند کی وفات کا علم عدت گزرنے کے بعد ہوتو اس پر کوئی عدت نہیں،اس لیے کہ عدت کی مدت تو پہلے ہی گزر چکی ہے۔( دیکھئے فتاویٰ ابن عثمین  رحمۃ اللہ علیہ (2/804) (شیخ محمد المنجد)
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ نکاح و طلاق

ص427

محدث فتویٰ

تبصرے