میں نوجوان شادی شدہ مسلمان ہوں اور میرے دو بچے ہیں۔میں نے 1981ء میں شادی کی اور میں اپنی بیوی سے محبت اور اس کا احترام کرتا ہوں لیکن وہ مجھے ناپسند کرنے لگی ہے اور میرے والد اور والدہ کوگالیاں دیتی ہے۔میں نے اس بہت سمجھایا لیکن وہ مجھے جاہل اور غیر مہذب کہتی ہے حتیٰ کہ اس نے نماز تک سے انکار کردیا ہے۔اب میں چاہتا ہوں کہ اس کو طلاق دےدوں اور میں چاہتا ہوں کہ میں صحیح راستہ پالوں بالخصوص اس کے حقوق اوربچوں کے حقوق کے بارے میں۔اسلیے میں آپ سے افادے کی امید رکھتا ہوں۔اللہ آپ کوفائدہ دے۔
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!طلاق مکروہ ہے الا کہ اس کی ضرورت پیش آجائے(تو پھر مباح ہے)پس جب معاملہ اس حد تک پہنچ جائے جیسا کہ آپ نے ذکر کیا ہے بالخصوص اس کانماز سے بھی انکار کردینا تو آپ کے لیے اس عورت کو رکھنا جائز نہیں۔آپ اسے سنت طریقے کے مطابق طلاق دے دیجئے۔وہ اس طرح کہ آپ اسے ایک طلاق ایسے طہر میں دیجئے جس میں آپ نے اس سے ہم بستری نہ کی ہو اور اسے اس کے گھر(یعنی شوہر کے گھر میں کہ جہاں وہ اس وقت رہ رہی ہے)میں ہی رہنے دیجئے حتیٰ کہ وہ عدت گزار لے اور اسے کچھ سامان مثلاً کپڑے یا خرچہ وغیرہ دے دیجئے اور بچوں کو بھی اس کے ساتھ ہ چھوڑدیجئے حتیٰ کہ وہ دوسری شادی کرلے۔(کیونکہ جب وہ نئی شادی کرلے گی) تو پھر آپ کو بچے لینے کا حق ہوجائے گااور آپ پر لازم ہے کہ ان دونوں پر آسانی اور تنگی ہرحال میں حسب توفیق اس وقت تک خرچ کرتے رہیں جب تک وہ اس کے پاس ہیں۔(شیخ ابن جبرین )