طلاق جائز اُمور میں سے ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
"اے نبی!(اپنی اُمت سے کہہ دو) جب تم عورتوں کوطلاق دو تو انہیں ان کی عدت(کے دنوں کے آغاز) میں طلاق دو۔"
اورفرمایا:
"یہ طلاقیں دو مرتبہ ہیں پھر یا تو اچھائی سے روکنا یا عمدگی کے ساتھ چھوڑ دینا ہے۔"
ایک اور آیت میں فرمایا:
"اگر تم عورتوں کو بغیر ہاتھ لگائے اور بغیر مہر مقرر کیے طلاق دو تو بھی تم پر کوئی گناہ نہیں۔"
اس کے جواز میں اور بھی بہت سے دلائل ہیں۔لیکن یہ جائز نہیں کہ مرد اپنی بیوی کو بغیر کسی معقول وجہ کے طلاق دےدے،کیونکہ یہ جوازصرف یا تو بری معاشرت کی وجہ سے یا بیوی کے دینی نقص کی وجہ سے یا اس طرح کے دیگر اسباب کیوجہ سے ہی ہے۔
اور اہل علم نے طلاق کو پانچ اقسام میں تقسیم کیا ہے:
1۔حرام۔2۔واجب۔3۔مکروہ۔4۔سنت۔5۔مباح
طلاق جائز اس وقت ہوتی ہے جب اس کی ضرورت پیش آجائے۔مکروہ وہ ہے جو بغیر ضرورت کے دی جائے۔مستحب وہ ہے جوبیوی کے طلب کرنے پر دی جائے۔واجب اس وقت ہوتی ہے جب طلاق نہ دینے میں بیوی کا نقصان ہو مثلاً شوہر بیوی سے ایلاء کرلے اور چار ماہ کے بعد رجوع نہ کرے تو پھر یا تو اسے حسن معاشرت کی طرف لوٹنا ہوگا یا پھر طلاق دینی ہوگی۔اور حرام طلاق وہ ہے جو ایسے طہر میں دی جائے جس میں شوہر نے بیوی سے ہم بستری کی ہو یا ایام ماہواری کے دوران دی جائے اس لیے کہ مرد کے لیے جائز نہیں کہ وہ اپنی بیوی کو ایسے طہر میں طلاق دے جس میں اس نے اس سے ہم بستری کی ہو یا وہ عورت حالت حیض میں ہو۔بلکہ وہ صرف اسے ایسے طہر میں طلاق دے سکتاہے جس میں وہ اس سے ہم بستر نہ ہوا ہو یا وہ عورت حاملہ ہو۔
اور جو حدیث سائل نے ذکر کی ہے کہ:
"اللہ تعالیٰ کے نزدیک حلال اشیاء میں سب سے زیادہ قابل نفرت چیز طلاق ہے۔"
"اللہ تعالیٰ کے نزدیک حلال اشیاء میں سب سے زیادہ قابل نفرت چیز طلاق ہے۔" (ضعیف:العلل المتناھیۃ لابن الجوزی(2/1056) الذخیرۃ(1/23)
یہ ضعیف ہے اس لیے اس پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا۔اللہ تعالیٰ ہی توفیق دینے والاہے۔(شیخ ابن عثمین رحمۃ اللہ علیہ )