بیوی پر کوئی حرج نہیں کہ وہ خاوند سے اپنے مال کا مطالبہ کرے کیونکہ یہ اس کا خصوصی حق ہے لیکن یہاں ہم کچھ ا ُمور پر چند ایک تنبیہات کرنا چاہتے ہیں:
1۔بیوی کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ اپنے خاوند پر صرف اس لیے تنگی کرے کہ وہ دوسری شادی کرنا چاہتا ہے۔اور اصل بات تو یہ ہے کہ لوگوں میں ایک دوسرے کے ساتھ نیکی کے کاموں میں تعاون ہونا چاہیے اور پھر خاوند اور بیوی کے درمیان تو یہ تعاون اور زیادہ ہونا چاہیے۔
2۔قرض دینے والے کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ تنگ دست مقروض سے اپنے مال کامطالبہ کرے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
"اور اگر کوئی تنگی والا ہو تو اسے آسانی تک مہلت دینی چاہیے اور یہ کہ تم صدقہ کردو تو تمہارے لیے بہت ہی بہتر ہے۔"
2۔مقروض کے لیے یہ بھی جائز نہیں کہ اس کے پاس قرض ادا کرنے کے لیے رقم ہوا اور وہ اپنے قرض کی ادائیگی میں سستی کرتا رہے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
"مالدار شخص کا قرض کی ادائیگی میں ٹال مٹول کرنا ظلم ہے۔"( مسلم(1564)کتاب المساقاۃ۔باب تحریم مطل الغنی وصحۃ الحوالۃ)
3۔ہم اسے بھی جائز نہیں سمجھتے کہ خاوند اپنی بیوی کے مال سے شادی کرتا پھرے،کیونکہ یہ تو اسکے لیے بہت ہی زیادہ تکلیف دہ ہوگا،اسلیے خاوند کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی بیوی سے لیا ہوا قرض واپس کرے اور قرض کی ادائیگی کے بعد اگر اس کے پاس اتنا مال بچتاہے جس سے وہ شادی کرسکے تو کرلے وگرنہ شادی نہ کرے۔(واللہ اعلم)(شیخ محمد المنجد)