میرے لیے ایک مسلمان شخص کا رشتہ آیاہے جس کی عمر مجھ سے بیس برس زیادہ ہے اس کی پہلے بھی ایک بیوی ہے جو ابھی تک اس کے پاس ہے۔ اس شخص نے میری زندگی میں بہت زیادہ تعاون کیا اور اسلامی راستے کی رہنمائی کی ہے۔میرے والدین بھی مسلمان ہیں لیکن انہوں نے مجھے نہ نماز،نہ روزہ اور نہ ہی زکواۃ کے بارے میں کچھ بتایا اور نہ ہی تعلیم دی۔
یہ شخص مجھ سے دوسری شادی کرنا چاہتا ہے لیکن اس میں دو بیویوں کے اخرجات برداشت کرنے کی طاقت نہیں اس نے اس مشکل کے بارے میں کچھ لوگوں سے دریافت کیا تو کچھ نے شادی کرلینے کی رائے دی اور کچھ نے نہ کرنے کی،میں اس شخص کا بہت زیادہ احترام کرتی ہوں لیکن مجھے یہ یقین نہیں کہ میں اس کے ساتھ زندگی گزار سکوں گی کہ نہیں۔اس کے بارے میں آپ ہی کچھ نصیحت کریں۔اللہ تعالیٰ نے مرد پر دوسری شادی کرنے سے قبل جو اشیاء لازم کی ہیں ان میں یہ بھی شامل ہے کہ وہ نان ونفقہ رہائش اور بیویوں کے پاس رات بسر کرنے میں عدل وانصاف سے کام لے سکتا ہو۔اگر اسے علم میں ہوکہ وہ بیویوں کے درمیان ان اشیاء میں عدل وانصاف نہیں کرسکتا یا اس کا ظن غالب بھی یہی ہو کہ وہ انصاف نہیں کرسکے گا تو اس کے لیے دوسری شادی کرنا جائز نہیں۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ:
"اور اگر تمھیں خدشہ ہو کہ تم یتیم لڑکیوں سے نکاح کرکے ان میں عدل وانصاف نہیں کرسکو گےتو اور عورتوں سے جو بھی تمھیں اچھی لگیں تم ان سے نکاح کرلو،دودو تین تین چار چار سے لیکن اگر تمھیں عدل وانصاف اور برابری نہ کرسکنے کا خدشہ ہو تو ایک کافی ہے۔ یا پھر تمہاری ملکیت کی لونڈی یہ زیادہ قریب ہے کہ(ایسا کرنے سے ناانصافی اور) ایک طرف جھک جانے سے بچ جاؤ۔"(النساء:3)
امام مجاہد کہتے ہیں کہ:
"تم جان بوجھ کر برا سلوک کرنے کی کوشش نہ کرو بلکہ تقسیم اور نان نفقہ میں برابری اور انصاف کا التزام کرو کیونکہ اس چیزمیں انسان استطاعت ر کھتا ہے۔"( دیکھئے ۔تفسیر قرطبی(5/407)
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کاکہنا ہے کہ:
"نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء کرتے ہوئے بیویوں کے درمیان نان ونفقہ اور لباس میں برابری اور عدل سے کام لینا مسنون ہے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی اپنی بیویوں کے درمیان نان ونفقہ اور تقسیم میں عدل وانصاف کیا کرتے تھے۔"( مجموع الفتاویٰ(32/269)
حافظ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ:۔
"نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ازواج مطہرات کے درمیان رات بسر کرنے نان ونفقہ اور رہائش وغیرہ میں عدل وانصاف اور برابری کیاکرتے تھے اور اس(یعنی محبت اور جماع) میں برابری واجب نہیں کیونکہ یہ ایک ایسی چیز ہے جس کاانسان مالک نہیں۔"( ذاد المعاد(1/151)
حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ:
"جب خاوند اپنی بیویوں میں سے ہر ایک نا ن ونفقہ ،لباس اور رہائش مہیا کردے تو اس کے بعد میلان قلب اور محبت یا پھر کسی کو تحفہ وغیرہ دینے میں اسے کوئی نقصان نہیں ہوگا۔"( فتح الباری(9/391)
جو شخص دوسری شادی کرنا چاہے اللہ تعالیٰ نے اس پر یہ کچھ واجب کیا ہے اگر وہ شخص اس پر قادر ہے تو پھر اس سے دوسری شادی کرنے میں کوئی حرج نہیں،لیکن اگر وہ اس کی طاقت نہیں رکھتا تو ہماری یہ نصیحت ہے کہ آپ اس سے شادی نہ کریں بلکہ اصل میں اس کے لیے دوسری شادی کرنا جائز ہی نہیں۔
آپ نے جو کہا ہے کہ"وہ دونوں بیویوں کے اخراجات برداشت نہیں کرسکتا"تو اگر وہ شخص صاحب دین اوراچھے اخلاق کا مالک ہے اور آ پ تنگی اور فقر پر صبر وتحمل کرسکتی ہیں تو اس سے شادی کرنے میں کوئی حرج نہیں،کیونکہ شادی کرنے والے فقیر شخص سے اللہ تعالیٰ نے وعدہ کیا ہے کہ وہ اپنے فضل سے غنی کردے گا۔جیسا کہ فرمایا:
"اگر وہ فقیرہوں تو اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے انہیں غنی کردے گا۔"(النور:32)
حتیٰ کہ کچھ سلف حضرات تو اس آیت پر عمل کرتے ہوئے صرف روزی کے حصول کے لیے شادی کیا کرتے تھے لیکن اگر آپ دیکھیں کہ فقر اور تنگ دستی پر آپ صبر نہیں کرسکتیں تو اس سے شادی کرنے سے انکار میں کوئی مضائقہ نہیں۔جب فاطمہ بنت قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے شادی کا پیغام دیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کہتے ہوئے انہیں شادی نہ کرنے کا مشورہ دیاتھا کہ وہ تنگ دست ہے اور اس کے پاس مال ہی نہیں۔( مسلم(1480)کتاب الطلاق باب المطلقہ ثلاثا لانفقہ لھا) (شیخ محمد المنجد)