سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(135) نمازی کے سترہ کا حکم

  • 1591
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 1268

سوال

(135) نمازی کے سترہ کا حکم

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

فَاِنِّیْ قَدْ سَئَلْتُکَ حِيْنَمَا زُرْتُکَ قَبْلَ شَهْرٍ عَنْ حُکْمِ سُتْرَةِ الْمُصَلِّیْ هَلْ هِیَ وَاجِبَةٌ اَمْ مُسْتَحَبَّةٌ وَعَنْ حُکْمِ نَصْبِهَا فِیْ دَاخِلِ الْمَسْجِدِ اَمَامَ الْمُصَلِّيْنَ فَقَدْ اَرْشَدْتَّنِیْ اِلٰی رِوَايَةِ مُسْنَدِ الْبَزَّارِ الَّتِیْ ذَکَرَهَا الْحَافِظُ فِی الْفَتْحِ مُشِيْرًا اِلٰی اَنَّهَا لَمْ تَکُنْ اَمَامَ النَّبِیِّﷺ کَمَا قَالَ الشَّافِعِیُّ وَالْبَيْهَقِیُّ فِیْ حَدِيْثِ ابْنِ عَبَّاسٍ فَعُلِمَ اَنَّهَا مُسْتَحَبَّةٌ وَلٰکِنَّ صَاحِبَ الْمِرْعَاةِ اَجَابَ عَنْ حَدِيْثِ الْبَزَّارِ بِقَوْلِهٖ :’’لَيْسَ الْمُرَادُ فِیْهَا نَفْیَ السُّتْرَةِ مُطْلَقًا بَلْ اَرَادَ نَفْیَ السُّتْرَةِ الَّتِیْ تَحُوْلُ بَيْنَهُمْ وَبَيْنَهٗ کَالْجِدَارِ الْمُرْتَفعِ الَّذِیْ يَمْنَعُ الرُّؤْيَةَ ۔ وَقَدْ صَرَّحَ بِمِثْلِ هٰذَا الْعِرَاقِی‘‘ اِنْتَهٰی ۔ فَهَلْ قَوْلُ صَاحِب الْمِرْعَاةِ وَالْعِرَاقِی صَحِيْحٌ جَدِيْرٌ بِالْقَبُوْلِ اَمْ لاَ ؟ وَقَدْ مَالَ الْکِرْمَانِیُّ وَالْعَيْنِیْ اِلٰی اَنَّ غَيْرَ ۔ صِفَةٌ لِمَوْصُوْفٍ مَحْذُوْفٍ لِيُطَابِقَ الْحَدِيْثُ تَبْوِيْبَ الْبُخَارِیْ فَهَلْ قَوْلُهُمَا صَحِيْحٌ ؟

وَاَيْضًا هَلْ ثَبَتَ فِی الْحَدِيْثِ اَنَّ الصَّحَابَةَ کَانُوْا يَرْکُزُوْنَ اَمَامَهُمُ السُتَرَ فِی دَاخِلِ الْمَسَاجِدِ مُهْتَمِّيْنَ بِهٖ بَيِّنُوْا تُوْجَرُوْا عِنْدَاﷲِ

’’میں نے ایک ماہ قبل جب آپ سے ملاقات کی تھی تو آپ سے نمازی کے سترہ کے حکم کے متعلق سوال کیا تھا کہ کیا وہ واجب ہے یا مستحب ہے ۔ اور نمازیوں کے آگے مسجد کے اندر اس کو نصب کرنے کا حکم پوچھا تھا تو آپ نے مسند بزار کی روایت کی طرف میری راہنمائی فرمائی تھی وہ روایت جس کو حافظ نے فتح میں ذکر کیا ہے اشارہ کرتے ہوئے کہ وہ نبیﷺ کے سامنے نہیں تھا جس طرح شافعی اور بیہقی نے کہا ہے ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث میں پس معلوم ہوا کہ سترہ مستحب ہے لیکن صاحب مرعاۃ نے اپنے اس قول کے ساتھ بزار کی حدیث کا جواب دیا ہے اس میں مطلقاً سترہ کی نفی مراد نہیں ہے بلکہ اس نے اس سترہ کی نفی مراد لی ہے جو ان  کے درمیان اور آپﷺ کے درمیان ہو اور وہ بلند دیوار کی طرح ہو جو کہ دیکھنے کو مانع ہو اور اسی کی مثل عراقی نے صراحت کی ہے تو کیا صاحب مرعاۃ اور عراقی کا قول صحیح ہے قابل قبول ہے یا نہیں اور کرمانی اور عینی اس طرف مائل ہوئے ہیں کہ لفظ غیر موصوف محذوف کی صفت ہے تاکہ حدیث تبویب بخاری کے مطابق ہو جائے تو کیا ان دونوں کا قول صحیح ہے اور اسی طرح کیا حدیث سے ثابت ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہما مساجد کے اندر اپنے سامنے اہتمام سے سترہ لگایا کرتے تھے‘‘؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد! 

اَلْأَوَّلُ : عَنْ قَوْلِ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ : لَيْسَ الْمُرَادُ فِيْهَا نَفْیَ السُّتْرَةِ مُطْلَقًا ، بَلْ أَرَادَ نَفْیَ السُّتْرَةِ الخ هَلْ هُوَ صَحِيْحٌ جَدِيْرٌ بِالْقَبُوْلِ ؟ الخ

اَلثَّانِیْ : عَنِ الصَّحَابَةِ هَلْ کَانُوْا يَرْکُزُوْنَ أَمَامَهُمُ السُّتَرَ فِیْ دَاخِلِ الْمَسَاجِدِ ؟

وَالْجَوَابُ کَمَا يَأْتِیْ بَعْدُ بِتَوْفِيْقِ اﷲِ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی وَعَوْنِهٖ ۔

(1)لَيْسَ بِصَحِيْحٍ ، وَلاَ جَدِيْرٍ بِالقُبُوْلِ إِذْ لاَ دَلِيْلَ عَلَيْهِ ، وَتَبْوِيْبُ الْبُخَارِیِّ ، وَمِيْلاَنُ الْکِرْمَانِیْ وَالْعَيْنِیْ إِلٰی مَا مَا لاَ إِلَيْهِ لَيْسَا مِنَ الْأَدِلَّةِ فِیْ شَيْئٍ ، وَقَوْلُ بَعْضِهِمْ : فَإِنَّ التَّعَرُّضَ لِنَفْیِ الْجِدَارِ خَاصَّةً يَدُلُّ عَلٰی أَنَّهٗ کَانَ هُنَاکَ شَيْئٌ مُغَايِرٌ لِلْجِدَارِ الخ مِنْ بَابِ الْاِسْتِدْلاَلِ بِمَفْهُوْمِ اللَّقَبِ ، وَلَيْسَ بِحُجَّةٍ بِالْاِتِّفَاقٍ ، وَانْظُرْ لِذٰلِکَ إِرْشَادَ الْفُحُوْلِ ۔

هٰذَا وَقَالَ ابْنُ أَبِیْ شَيْبَةَ فِیْ مُصَنَّفِهٖ : حَدَّثَنَآ أَبُوْ مُعَاوِيَةَ عَنْ حَجَّاجٍ عَن الْحَکَمِ عَنْ يَحْيٰی بْنِ الْجَزَارِ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ : صَلّٰی رَسُوْلُ اﷲِﷺ فِيْ فَضَائٍ لَيْسَ بَيْنَ يَدَيْهِ شَيْئٌ۔ (۲۷۸/۱) وَهُوَ أَيْضًا دَلِيْلُ عَدْمِ وُجُوْبِ السُّتْرَةِ ۔

(2)کَانَ کِبَارُ أَصْحَابِ النَّبِیِّ ﷺيَبْتَدِرُوْنَ السَّوَارِیَ ، وَفِی النُّسْخَةِ الْمَطْبُوْعَةِ لِلْمُصَنَّفِ لِاِبْنِ أَبِیْ شَيْبَةَ : حَدَّثَنَا عِيْسٰی بنُ يُوْنُسَ عَنِ الْأَوْزَاعِیْ عَنْ يَحْيٰی بْنِ أَبِیْ کَثِيْرٍ قَالَ : رَأَيْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِکٍ فِی الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ قَدْ نَصَبَ عَصًا يُصَلِّیْ إِلَيْهَا ۔ (۲۷۷/۱) وَ حَدَّثَنَا أَبُوْبَکْرٍ قَالَ : ناوَکِيْعٌ عَنْ هِشَامِ بْنِ الْغَازِ عَنْ نَافِعٍ قَالَ : کَانَ ابْنُ عُمَرَ إِذَا لَمْ يَجِدْ سَبِيْلاً إِلٰی سَارِيَةٍ مِنْ سَوَارِی الْمَسْجِدِ قَالَ لِیْ : وَلِّنِیْ ظَهْرَکَ ۔ (۲۷۹/۱)

وَ : حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ الثَّقَفِیْ عَنْ عُبَيْدِ اﷲِ عَنْ نَافِعٍ أَنَّ ابْنَ عُمَرَ کَانَ يُقْعِدُ رَجُلاً ، فَيُصَلِّیْ خَلْفَهٗ وَالنَّاسُ يَمُرُّوْنَ بَيْنَ يَدَیْ ذٰلِکَ الرَّجُلِ ۔ (۲۸۰/۱)

هٰذَا وَأَحَادِيْثُ السُّتْرَةِ الْمَرْفُوْعَةُ ، وَالنَّاهِيَةُ عَنِ الْمُرُوْرِ بَيْنَ يَدَیِ الْمُصَلِّیْ لَمْ تُفَرِّقْ بَيْنَ الْمَسْجِدِ وَغَيْرِهٖ ، وَاﷲُ أَعْلَمُ

آپ نے مجھ سے دو چیزوں کا سوال کیا ہے ۔

اولاً :  بعض اہل علم کے قول کے متعلق کہ اس میں مطلق سترہ کی نفی مراد نہیں ہے بلکہ اس نے اس سترہ کی نفی مراد لی ہے الخ کیا وہ صحیح ہے قابل قبول ہے ؟

الثانی : آپ نے صحابہ کے متعلق پوچھا ہے کہ وہ مساجد کے اندر اپنے سامنے سترہ لگاتے تھے ؟ اور اللہ تبارک وتعالیٰ کی توفیق اور مدد سے جواب آ رہا ہے ۔

(۱) صحیح نہیں ہے اور نہ ہی قابل قبول ہے اس لیے کہ اسکی دلیل نہیں ہے اور بخاری کا باب قائم کرنا اور کرمانی اور عینی کا میلان جس طرف وہ دونوں مائل ہوئے ہیں دلیل نہیں بنتے اور ان کے بعض کا کہنا کہ خاص طور پر دیوار کی نفی کرنا اس چیز کی دلیل ہے کہ وہاں دیوار کے علاوہ کوئی چیز تھی ۔ تو اس دلیل کا تعلق مفہوم لقب سے ہے اور یہ بالاتفاق حجت نہیں ہے اس کے لیے ارشاد الفحول دیکھو ۔

اور ابن ابی شیبہ نے کہا اپنے ’’مصنف‘‘ (۲۷۸/۱) میں ہم کو ابو معاویہ نے بیان کیا وہ حجاج سے بیان کرتے ہیں وہ حکم سے وہ یحییٰ بن جزار سے وہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بیان کرتے ہیں اس نے کہا نبیﷺنے کھلی جگہ میں نماز پڑھی آپ کے سامنے کچھ بھی نہیں تھا ۔  اور یہ بھی سترہ کے واجب نہ ہونے کی دلیل ہے ۔

(۲) نبیﷺ کے بڑے بڑے صحابہ کرام رضی اللہ عنہما ستونوں کے لیے جلدی کرتے مصنف ابن ابی شیبہ (۲۷۷/۱) کے ایک مطبوعہ نسخہ میں ہے ’’ہم کو عیسیٰ بن یونس نے بیان کیا وہ اوزاعی سے وہ یحییٰ بن ابی کثیر سے بیان کرتے ہیں اس نے کہا میں نے انس بن مالک کو مسجد حرام میں دیکھا اس نے ایک لاٹھی کو گاڑھا ہوا تھا اس کی طرف نماز پڑھ رہا تھا‘‘۔

اور (امام ابن ابی شیبہ) فرماتے ہیں کہ ہم کو ابوبکر نے بیان کیا اس نے کہا ہم کو وکیع نے حدیث سنائی وہ ہشام بن غاز سے وہ نافع سے بیان کرتے ہیں اس نے کہا ابن عمر رضی اللہ عنہما تھے جب مسجد کے کسی ستون کو نہ پاتے تو مجھے فرماتے میری طرف اپنی پیٹھ کر لے ۔

اور (امام ابن ابی شیبہ فرماتے ہیں) ہم کو عبدالوہاب الثقفی نے بیان کیا وہ عبیداللہ سے وہ نافع سے بیان کرتے ہیں بے شک عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما ایک آدمی کو بٹھاتے پس اس کے پیچھے نماز پڑھتے اور لوگ اس آدمی کے آگے سے گزرتے۔

یہ احادیث اور تمام سترہ کی مرفوع احادیث نمازی کے آگے سے گزرنے کی ممانعت میں مسجد اور مسجد کے باہر کوئی فرق نہیں کرتیں ۔

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

احکام و مسائل

سترہ کا بیان ج1ص 123

محدث فتویٰ

تبصرے