سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(41) منکرین حدیث کی ایک تنقید کا محققانہ جواب

  • 15896
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1430

سوال

(41) منکرین حدیث کی ایک تنقید کا محققانہ جواب

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

 ایک کتا  ب’’ تاریخ اسلام  ،، مولوی معین الدین احمد صاحب نےلکھی ہےاور مولانا سید سیلمان ندوی نےاس پر ریویو کیا ہے ۔یہ کتاب دارالمصنفین اعظم گڑھ  سے طبع ہوئی ہے۔ اس میں لکھا ہےکہ کعب بن اشرف کوقتل کرنے کے لیے رسول للہ ﷺ نےمحمدبن مسلمہ ﷜ کومقرر کیا ، اس نے دھوکادےکر اس کوقتل کردیا ، اس پررسالہ ’’ طلوع اسلام،، دہلی نےسخت تنقید کی ہے۔ یہاں تک لکھ دیا کہ یہ بالکل جھوٹی اورمکروہ روایت ہے۔جہاں تک مجھے یاد ہے میں نے اخبار ’’ اہلحدیث ،، میں اس روایت کو بحوالہ  بخاری پڑھا ہے۔آپ اس  واقعہ کو صحیح طور پر لکھ دیں کہ کس طرح ہے آیا تاریخ میں ہے؟ یا کسی حدیث  کی کتاب میں ؟ اور ایسا فعل جائز ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

میں مناسب سمجھتا ہوں کہ اصل واقعات معتبر کتابوں کی روشنی میں کچھ تفصیل سےلکھ دوں تاکہ نفس واقعہ جوصحیح طو رپر ثابت ہے آپ کےسامنے آجائے پھر تنقید سےبحث کروں گا ۔وباللہ التوفیق ۔

واقعہ وقتل کعب بن الاشرف  ربیع الاول 3ھ گ:

جو جستہ صحیح بخاری  ( کتاب  المغازی باب قتل کعب بن الاشرف  5؍ 25)  وصحیح مسلم ( کتاب الجہاد والسیسرباب قتل کعب بن الاشرف طاغوت الیہود ( 1801) 3؍1425-

وفتح الباری ( 4037) 7؍ 336 وطبقات ابن سعد ( 2؍31)

مطبوعہ لیدن وسیرۃحلبیہ وسیرۃابن ہشام  (3؍51) تاریخ الخمیس وابوداؤد و ترمذی ( کتاب الجہاد با ب فی العدویوتی بھم علی غزۃ ( 2768؍2؍211)  ودیکر کتب سیرو مغاز ی میں مذکورہ ہے۔

کعب بن اشرف یہود ی شاعر کا باپ اشرف قبیلہ طیی سےتھا ۔قتل کا ارتکاب کر کے انتقام کےڈر سے مدینہ چلا آیا ، اوربنو نضیر کا حلیف ہوکر اس قدر عز ت اورروسوخ  پیداکیا کہ ابورافع سلام بن ابی الحقیق مقتدائے یہود کی لڑکی عقیلہ سے شادی  کی ، اس کےبطن سے کعب مذکورہ پیدا ہوا ۔اس دو طرفہ رشتہ داری کی وجہ سےکعب یہود اورعرب سےبرابر کاتعلق رکھتا تھا۔رفتہ رفتہ مال داری کی وجہ سےعرب کےتمام یہودیوں کا ئیں بن گیا ۔یہودی علماء اور مذہبی پیشوؤں کے وظیفے  اور تخواا ہیں مقرر کیں۔آں حضرت ﷺ جب مدینہ تشریف لائے اور بنو قریظہ اور قینقاع وبنو نضیر کےیہودی علماء ، اس سے اپنی  تنخواہیں لینے آئے توان لوگوں سےاس نے آں حضرتﷺ کے متعلق رائے دریافت کی ۔ان لوگوں  نےکہا یہی وہ نبی آخرالزمان ہےجس کا ہم انتظار کررہے تھے۔اورجس کی بشارت توریت اورانجیل  میں دی گئی ہے۔ان دونوں کتابیں میں نبی منتظر کے جونشانات اورعلامات واوصاف بتائے گئے ہیں وہ سب اس میں موجود ہیں۔کعب نےان کےوظیفے  دینے سے کہہ انکار کردیا کہ میرے ذمہ اوربھی  بہت سےحقوق ہیں۔اب یہ یہودی علماء چونکہ ،کعب کے پاس گئے اورکہا کہ ہم نے جواب دینے میں عجلت سےکام لیا ۔ہم کوغور کرنے کا موقعہ نہیں ملا۔توریت وانجیل کی مراجعت کےبعد معلوم ہواکہ یہ وہ بنی نہیں ہے جس کا ہم انتظار کر رہے ہیں۔کعب نےان کواپنا ہم خیال پاکر ان کی مقررہ تنخوا ہیں جاری کردیں ۔اس کو اسلام سےسخت بغض وعداوت تھی ۔بدر کی لڑائی میں عظما ء مکہ اور سرداران قریش مارے گئے اور زید بن حارثہ  وعبداللہ بن رواحہ مثردہ فتح لے کرمدینہ آئے ۔اور مقتولین بدر کےنام لے لے کر گنانے لگے ، تویہ ان کی تکذیب کرتا اورکہتا کہ اگر صنادید قریش مارڈالے گئے ہیں، تواب زندہ رہنا بےکار ہے۔زندگی سےبہتر موت ہے۔پھر جب اس کو ان کےبارے جانے کا یقین ہوگیا توباوجود معاہد ہونے کےتعزیت کےلیے مکہ گیا ، اور کشتگان بدر کےپردرد مرثیے جن میں انتقام کی ترغیب تھی اورکافروں کی تعریف اور عام مسلمانوں کی ہجو ، لوگوں  کو جمع کرکے نہایت درد سے پڑھتا اور روتا اور رلاتا ۔مدینہ واپس آیا توآں حضرت ﷺ کی ہجو میں برملا شعار کہنا اور لوگوں کو آں حضرت ﷺ اور مسلمانوں کےخلاف برانگیختہ کرنا شروع کیا ، اوران اشعار میں مسلمان خواتین کی عزت وناموس پرناپاک حملے کئے ۔اپنی شاعری کے ذریعے تمام مکہ اورعرب  قبائل میں مسلمانوں کےخلاف انتقام قریش مکہ سےمعاہدہ کرے ۔ چنانچہ وہاں ابوسفیان سےملا ۔اور اپنی  غرض بیان کی ۔

ابو سفیان نےکہا تمہارا کیا اعتبار ،تم اہل کتا ب او رمحمد بھی  ( بخیال خویش ) اہل کتا ب ہے، ممکن ہےیہ تمہاری سازش ہو، پس جب تک تم ہمارے ان بتوں کوسجدہ نہ کرلوہم اطمینان نہیں ہوگا اور ہم تمہارے ساتھ محمد ﷺ کے خلاف معاہدہ نہیں کریں گے۔ان یہودیوں نے ان کےبتوں کوسجدہ بھی کرلیا اور اپنی طرف سےہر طرح ان کو اطمینان  دلایا  ، پھر کعب ابو سفیان کوحرم میں لے گیا سب نے کعبہ کا پردہ پکڑ کر معاہدہ کیا کہ ہم ضرور  بدر کاانتقام لیں گے۔

اس پر بھی کعب نےاکتفانہ کیا بلکہ قصد کیا کہ چپکے اوردھو کے سےآں حضرت ﷺ کوقتل کرادے ۔فتح الباری  ( 7؍338) میں ہے کہ کعب نےآں حضرت ﷺ  کودعوت میں بلایا اور یہودیوں کی متعین کردیا کہ جب آپ ﷺ تشریف لائیں تودھوکے سے آپ کوقتل کردیں۔آپ ﷺ دعوت میں تشریف لے گئے ۔جبریل السلام  نے آں حضرت کواس کی نیت بد سے مطلع کردیا  اور آپ ﷺ کواپنے پروں سے چھپا لیا ۔آپ ﷺ مدینہ واپس تشریف لا ئے اورکسی کوآپ کے آنے کی خبر نہیں ہوئی ۔فتنہ انگیزی کا زیادہ اندیشہ ہوا توآپ ﷺ نےبعض  صحابہ سےشکایت کی اورفرمایا کہ کون شخص  کعب کوقتل کرنے کا شرف حاص کرے گا ؟ اس نے اللہ اور اس کے رسول  کو بےحد ایذا ئیں پہنچا ئیں۔نقص عہد  کرکے مشرکوں کی  مدد کی  اورکھلم کھلا ہماری ہجوکررہا ہے۔اس کی شرارتیں حد سے متجاوز ہوچکی ہیں۔محمدبن مسلمہ انصاری﷜ نےعرض کیا۔  میں تعمیل حکم کوحاضر ہوں۔وہ میرا ماموں ہے میں اس   کا سر قلم کروں گا ۔آپ ﷺ نےفرمایا سعدبن معاذ ﷜ رئیس اوس سےمشورہ کرلو۔بعد مشورہ جاتے  وقت محمد بن مسلمہ  ﷜ نےعرض کیا  أئذن أن اقول شیا ، قال، قل ،،  یعنی : اجازت دیحیے ۔کہ اپنے اور آپ کےمتعلق مصلحت وقت کے مطابق اس کے سامنے کچھ تعریضی کلمے کہوں ( تعریضی ایسے کلمے کوکہتےہیں : جس کا اصل معنی درست اورصحیح ہو اور محل اعتراض وشک نہ ہو ، لیکن مخاطب کا ذہن ا س طرف نہ جائے بلکہ کچھ اور سمجھے او ر یہ شرعا جائز ہے۔بشرطیکہ ایسا کرنے سے کسی صاحب حق کا حق نہ مارا جائے ۔( عبیداللہ رحمانی )

آپ ﷺ نے اجازت دے دی ۔ محمدبن مسلمہ ﷜ کےساتھ چار آدمی اور ہوگئے ، جن میں ایک کعب کےرضاعی بھائی ابونائلہ ﷜  بھی تھے۔ یہ جماعت کعب کےیہاں پہنچی  ۔محمدبن مسلمہ ﷜ نےکعب سےکہا ’’ إن هذا الرجل قد سألنا صدقة ، وقد عنانا ، وفى طبقات ابن سعد : إن قدوم هذا الرجل كان علينا من البلاء ، حاربتنا  العرب ورمتنا عن قوس واحد  ان جائز او رغیر قبیح تعریضی کلمات کا اصل مطلب ہے یہ ہےکہ آپ نے شریعت کےآداب وقواعد کی تعلیم کے بوجھ سےہم کو مشقت وتکلیف میں ڈال دیا ۔ لیکن یہ تکلیف  وصعوبت  اللہ تعالی کی  خوشبودی کےلیے ہے،اس لئے اگرچہ ظاہر میں زحمت ہے لیکن  باطن میں رحمت ہونے کی وجہ سے ہم کومحبوب اورعزیز ہے۔محمدبن مسلمہ  نے یہ بھی کہا کہ محمدﷺ ہم سے زکوۃ مانگنے ہیں (مصارف میں تقسیم  کرنے کےلیے ) اورہمارے پاس کھانے کو نہیں ہے ( کیونکہ کہ ہر شخص صاحب نصاب ومقدور نہیں ہے) آپ ﷺ کوپناہ دینے کو وجہ سے سارا عرب ہمارا دشمن ہوگیا ہے ، اورسب ہمارے خون کے پیاسے ہوگئے  ہیں۔ان کا آنا توہمارے لیے (بظاہر) زحمت اور مصیبت بن گیا ۔کعب ان کلمات کوآں حضرت ﷺ کے شکائت اورنکتہ چینی  سمجھ کر بہت خوش ہوا ور کہنے لگا کہ  ابھی کیا ہوا، اس سے زیادہ پریشانی  اٹھاؤ گے او ر اس سے خود اکتا جاؤ گے ۔ ان لوگوں نے کہا ہم ان کا ساتھ چھوڑنا مناسب نہیں سمجھتے ۔ جب تک یہ نہ معلوم ہوجائے کہ ان کےمشن کا کیا حشر اور انجام ہوتا ہے۔ہم تم سے قرض لینے آئے ہیں۔ کعب نےکہا اچھا قرض کےلیے اپنی عورتوں کورہن رکھدو ۔محمد بن مسلمہ وغیرہ نےکہا ، تمارے حسن وجمال کی وجہ سے ہم کواپنی بیویوں پر اعتماد اوران کےوفاداری کا یقین نہیں ہے۔اس نےکہا : اچھا  اپنے بچوں کوگرورکھو۔ انہوں نے کہا اس سے  تو تمام عرب میں ہماری  بدنامی ہوگی ۔یہ ہمارے بچوں کےلیے سخت ننگ وعار کا باعث ہوگا۔ہم اپنے ہتھیا ر گرورکھیں گے اور تم جانتے ہو آج کل ہتھیا ر کی ہر کسی کوضرورت ہے۔یہ لوگ ایک معین تاریخ وعدہ لے کر واپس چلے آئےاور تاریخ معینہ پررات کو کعب کےپاس گئے ۔ محمدبن مسلمہ ﷜ نے اپنے ہمراہیوں سےکہہ دیا تھا  کہ میں اس کے سرکےبال سونگھوں گا اور جب دیکھو کہ میں نے اس پرپورا قابوپالیا ہےتو تلوار سے کاکام  تمام کردینا۔ان لوگوں نےکعب کوآواز دے کر قلعہ سے  باہر بلایا ۔ کعب نےنئی شادی کی تھی ۔ خوشبوسےمعطر ہورہا تھا۔ان لوگوں نےاس کےسرکے بال سونگھنے کی خواہش ظاہر کی اس نے سرجھکا دیا ۔اور کہا میرے نکاح میں عرب کی معطر ترین جمیل وحسین عورت ہے۔ان  لوگوں نےقابو پاکر اس کو قتل کردیا اور سرکاٹ لائے اور آں حضرت ﷺ کےسامنے ڈال دیا۔آپ ﷺ بےحد مسرور ہوئے۔صبح کو یہود ٖآپﷺ کی خدمت میں آئے اور کہا کہ آج رات میں ہمارے سردار کوخفیہ طور پر مارڈالا گیا۔آپ ﷺ نےا س کی شرارتیں اور غداریاں ان پرظاہر کیں تو وہ خاموش ہو گئے ۔

اس  قدرے مفصل واقعہ سے چند حقائق سامنے آگئے :

(1)  کعب نے نقص عہد کیا ۔

(2)  قریش مکہ کوآں حضرت  ﷺ کےخلاف برانگیختہ کیا۔

(3)  آپ ﷺ کی اورعام مسلمانوں کی  علانیہ ہجو کی ۔

(4)  مسلم مستورات کو عزت وآبرو پر ناپا ک حملے کئے  ۔

(5)  آپ ﷺ کو قتل کرادینے کی سازش کی ۔

آپ ﷺ نے اعلان جنگ کرکے میدان جنگ میں علی الاعلان اس   سے اور اس کو قوم سے لڑائی کرنے کے بجائے بلطائف الحیل اس کوقتل کرادیا  تاکہ ا س  فتنہ  گراور مفسد وفساد ہمیشہ کےلیے ختم ہو جائے ۔او راس کی پوری قوم سے تعرض نہیں فرمایا کہ وہ لوگ  اس کے تابع تھے ا ور اصل سرغنہ یہی تھا۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ شیخ الحدیث مبارکپوری

جلد نمبر 1

صفحہ نمبر 130

محدث فتویٰ

تبصرے