سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(310) ایک سے زیادہ شادیوں کا حکم اور حکمت

  • 15888
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 3257

سوال

(310) ایک سے زیادہ شادیوں کا حکم اور حکمت
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
حقیقی طور پر میں اسلام کی رغبت رکھتی تھی اس لیے میں نے اسلامی لٹریچر پڑھنا شروع کیا لیکن اس کی بعض چیزیں  پڑھ کر میں بہت زیادہ پریشانی کا شکار ہوگئی ہوں اور وہ مجھے اسلام سے بھی دور لے گئی ہیں جن میں سے ایک ہے"ایک سے زیادہ عورتوں سے شاد ی کرنا"میں چاہتی ہوں کہ آپ مجھے بتائیں قرآن مجید میں اس کا بیان کس جگہ کیا گیا ہے؟میری یہ بھی گزارش ہے کہ آپ میرے لیے چند ایک ہدایات بھی ارسال کریں جو میری  صحیح زندگی گزارنے میں معاون بن سکیں تاکہ میں صحیح ر استے سے بھٹک نہ جاؤں۔

الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اللہ تعالیٰ نے رسالت کو دین اسلام کے ساتھ ختم کیا ہے اور یہ وہی دین اسلام ہے جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے یہ بتایا ہے کہ اس کے علاوہ کوئی اور دین قابل قبول نہیں۔لہذا آپ کا دین اسلام کو قبول نہ کرنا اور اس سے دور ہوجانا آپ کے لیے بہت ہی بڑا خسارہ شمار ہوگا اور سعادت مندی کی زندگی بھی آپ سے چھن جائے گی۔اس لیے ہم یہی کہیں گے کہ جتنی جلدی ہوسکے آپ اسلام قبول کرلیں۔اور اس میں کسی بھی قسم کی تاخیر نہ کریں کیونکہ اسلام قبول کرنے میں تاخیر کا انجام اچھا نہیں۔اور آپ نے جو یہ کہاہے کہ آپ کا اسلام سے دور ہٹنے کا سبب"تعددزوجات" ہے تو اس کے بارے میں سب سے پہلے تو ہم حکم بیان کریں گے ،پھر اس کی حکمت اورغرض وغایت۔

1۔تعدد زوجات کا حکم:

اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب قرآن مجید میں فرمایا ہے:

﴿وَإِن خِفتُم أَلّا تُقسِطوا فِى اليَتـٰمىٰ فَانكِحوا ما طابَ لَكُم مِنَ النِّساءِ مَثنىٰ وَثُلـٰثَ وَرُ‌بـٰعَ فَإِن خِفتُم أَلّا تَعدِلوا فَو‌ٰحِدَةً أَو ما مَلَكَت أَيمـٰنُكُم ذ‌ٰلِكَ أَدنىٰ أَلّا تَعولوا ﴿٣﴾... سورة النساء

"اور اگر تمھیں یہ خدشہ ہو کہ تم یتیم لڑکیوں سے نکاح کرکے انصاف نہیں کرسکو گے تو اور عورتوں میں سے جو بھی تمھیں اچھی لگیں تم ان سے نکاح کرلو دو دو تین تین چار چار سے لیکن اگر تمھیں برابری اور  عدل نہ کرسکنے کا خوف ہو وتو ایک ہی کافی ہے یا تمہاری ملکیت کی لونڈی یہ زیادہ قریب ہے کہ تم ایک طرف جھک پڑنے سے بچ جاؤ۔"

زیادہ شادیوں کے جواز میں یہ آیت نص ہے۔لہذا شریعت اسلامیہ میں یہ جائز ہے کہ انسان ایک عورت یا دو یا تین یا چار عورتوں سے بیک وقت شادی کرلے یعنی ایک ہی وقت میں اس کے پاس ایک سے زیادہ بیویاں رہ سکتی ہیں۔لیکن وہ ایک وقت میں چار سے زیادہ نہیں رکھ سکتا اور نہ ہی اس کے لیے ایسا کرنا جائز ہے مفسرین فقہائے عظام اور سب مسلمانوں کا اس  پر اجماع ہے کسی نے بھی اس میں کوئی اختلاف نہیں کیا۔

2۔تعدد زوجات کی اباحت میں حکمت:

1۔زیادہ شادیوں کو اس لیے جائز کیا گیا ہے کہ امت مسلمہ کی کثرت ہو اور یہ تو معلوم ہی ہے کہ کثرت شادی کے بغیر نہیں ہوسکتی اور ایک بیوی کی بہ نسبت اگر زیادہ بیویاں ہوں تو پھر کثرت نسل میں بھی زیادتی ہوگی۔اور اہل عقل ودانش کے ہاں یہ بات معروف ہے کہ افراد کی کثرت امت کے لیے تقویت کا باعث ہوتی ہے اور  پھر افرادی قوت کی زیادتی سے کام کرنے کی رفتار بھی بڑھے گی جس سے معیشت بھی مضبوط ہوگی لیکن اس کے لیے یہ شرط ہے کہ ملک میں حکمران تدبیری اُمور صحیح طور پر جاری کریں۔

آپ ان لوگوں کی باتوں میں نہ آئیں جو یہ کہتے پھرتے ہیں کہ افراد کی کثرت نقصان دہ ہے اور خوشحالی کے لیے مضر ہے یہ بات غلط ہے اس لیے کہ اللہ تعالیٰ حکیم وعلیم ہے جس نے ایک سے زیادہ شادیوں کو جائز قرار دیا ہے اور اپنے بندوں کے رزق کی ذمہ داری بھی خود ہی اُٹھائی ہے اور زمین میں وہ سب کچھ پیدا فرمایا ہے۔جو ان سب کے لیے کافی ہے بلکہ کفایت سے بھی زیادہ ہے۔اور اگر کچھ کمی ہوتی  تو وہ حکومتوں اور اداروں کے ظلم وزیادتی اور غلط قسم کی پلاننگ کی وجہ سے ہے مثال کے طور پر آپ افرادی قوت کے اعتبار سے سب سے بڑے ملک چین کو ہی دیکھیں جو کہ اس وقت ساری دنیا میں سب سے قوی ملک شمار کیا جاتا ہے۔بلکہ کئی ہزار گنا شمار ہوتا ہے۔ اور اسی طرح دنیا کا سب سے بڑا صنعتی ملک بھی چین ہی شمار ہوتا ہے اور کون ہے جوچین پر چڑھائی کرنے کا سوچے اور اس کی جراءت کرے؟کاش لوگ تعدد کے فوائد جان جائیں۔

2۔سروے سے یہ  بات ثابت ہوچکی ہے کہ عورتوں کی تعداد مردوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے تو اس طرح اگر ہر مردصرف ایک عورت سے ہی شادی کرے گا تو کتنی ہی عورتیں کنواری ہی رہ جائیں گی جو کہ معاشرے اور بذات خود  عورت کے بھی نقصان دہ ہے۔عورت ذات کو جو نقصان پہنچے گا وہ یہ کہ اس کے پاس ایسا خاوند نہیں ہوگا جو اس کی ضروریات پوری کرے اور اس کی معاش اور رہائش کا بند وبست کرے اور حرام قسم کا شہوات سے اسے روک کررکھے اور سے ایسی اولاد پیدا کرے جو اس کی آنکھوں کی ٹھنڈک ہو نتیجتاً وہ غلط راہ پر چل نکلے گی اور ضائع ہو جائے گی سوائے اس کے جس پرپروردگار کی خاص رحمت ہو۔

اور جو معاشرے کو نقصان ہوگا وہ یہ ہے کہ سب کو علم ہے کہ خاوند کے بغیر بیٹھ رہنے والی عورت سیدھے راستے سے منحرف ہوجائے گی اور گندے راستے پر چل نکلے گی جس سے وہ زنا بدکاری میں مبتلا ہوجائے گی اور معاشرے میں فحاشی اور ایڈز جیسی گندی مہلک اور لا علاج بیماریاں جنم لیں گی اور پھر خاندان تباہ ہوں گے اور حرام کی اولاد بہت زیادہ  پیدا ہونے لگے گی جسے یہ علم ہی نہیں ہوگا کہ ان کا باپ کون ہے؟اس طرح انہیں نہ تو کوئی مہربانی اور نرمی کرنے والا ہاتھ ہی نصیب ہوگا اور نہ ہی ایسی عقل وفہم ملےگی جو ان کی اچھی تربیت کرسکے اور  جب وہ اپنی زندگی کا آغاز کریں گے اور انہیں اپنی حقیقت کا علم ہوگا کہ وہ زنا کی اولاد ہیں تو دلبرداشتہ ہوکر یا تو خود کشی کی طرف دوڑیں گے  پھر یا وہ معاشرے پر وبال بن جائیں گے اور اسے اپنے اوپر ہوئے ظلم کی سزا دیں گے جس سے فسادات کی کثرت ہوجائےگی اور معاشرے تباہی کے کنارے پر پہنچ جائیں گے۔

3۔مرد  حضرات ہر وقت خطرات سے کھیلتے رہتے ہیں جو کہ ہوسکتاہے ان کی زندگی ہی  ختم کردیں اس لیے کہ وہ بہت زیادہ محنت ومشقت کے کام کرتے ہیں کہیں وہ جنگوں میں شریک ہوتے ہیں کہیں ان کی شہادت کی خبریں موصول ہوتی ہیں تو مردوں کی صفوں میں وفات کا احتمال عورتوں کی صفوں سے زیادہ ہے جو کہ عورتوں میں بلاخاوند رہنے کی شرح زیادہ کرنے کا سبب ہے۔ اور اس کا صرف ایک ہی حل ہے کہ ایک سے زیادہ شادیوں کو رواج دیاجائے۔

4۔مردوں میں کچھ ایسے مرد بھی پائے جاتے ہیں جن کی شہوت قوی ہوتی ہے انہیں ایک عورت کافی نہیں رہتی تو اگر ایک سے زیادہ شادیاں کرنے کا دروازہ بند کردیا جائے اور اس شخص سے یہ کہا جائے کہ آپ کو صرف ایک بیوی کی اجازت ہے تو وہ بہت ہی زیادہ مشقت میں  پڑ جائے گا اور ہوسکتا ہے کہ  وہ اپنی شہوت کسی حرام طریقے سے پوری کرنے لگے۔آپ اس  میں یہ بھی اضافہ کرتے چلیں کہ عورت کو ہر ماہ حیض بھی آتا ہے اور جب ولادت ہوتی ہے تو پھر وہ چالیس روز تک نفاس کی حالت میں رہتی ہے جس بنا پر مرد اپنی بیوی سے ہم بستری نہیں کرسکتا،کیونکہ شریعت اسلامیہ میں حیض اور نفاس کی حالت میں ہم بستری کرنا حرام ہے۔ اور پھر اس کا طبی طور پر بھی نقصان ثابت ہوچکاہے اس لیے جب عدل کرنے کی قدرت ہو تو ایک سے زیادہ شادیاں کو جائز کیا گیا ہے۔

5۔یہ تعدد صرف دین  اسلام میں ہی جائز نہیں کیاگیا بلکہ پہلی امتوں میں بھی یہ معروف تھا اور بعض انبیاء علیہ السلام   کئی عورتوں سے شادی شدہ تھے۔حضرت سلیمان  علیہ السلام   کی نوے بیویاں تھیں اسی طرح عہد رسالت میں کئی ایک مردوں نے اسلام  قبول کیا تو ان کے پاس آٹھ بیویاں تھیں اور بعض کے پاس پانچ تھیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم   نے انہیں حکم دے دیا کہ وہ ان میں سے چار کو رکھیں اور باقی کوطلاق دے دیں۔

6۔ہوسکتا ہے کہ ایک بیوی بانجھ ہو یا خاوند کی ضرورت پوری نہ کرسکے،یاکسی بیماری کی وجہ سے خاوند اس سے مباشرت نہ کرسکے اور خاوند اپنی شہوت پوری کرنے کا کوئی اور جائز ذریعہ تلاش کرتا رہے تو اس کے پاس دوسری شادی کے علاوہ کوئی اور ذریعہ نہیں۔

7۔یہ بھی ہوسکتا ہے کہ کوئی عورت آدمی کے قریبی رشتہ داروں میں سے ہو جس کا کوئی کفالت کرنے والا نہ ہو اور وہ شادی شدہ بھی نہیں یا پھر بیوہ ہے اور یہ شخص خیال کرتا ہو کہ اس کے ساتھ سب سے بڑا احسان یہی ہے کہ وہ اسے اپنی بیوی  بنا کر اپنے ساتھ اپنی پہلی بیوی کے ساتھ گھر میں رکھے تاکہ اس کے لیے عفت وعصمت اور خرچہ دونوں جمع کردے جو اسے اکیلا چھوڑنے سے کہیں زیادہ بہتر ہے۔

اعتراض:

ہو سکتا ہے کہ کوئی اعتراض کرتا ہوا کہ یہ کہے کہ ایک سے زیادہ بیویاں رکھنے میں ایک گھر میں  کئی ایک سو کنوں کا وجود  پیدا ہوگا اور اس بنا پر سوکنوں  میں دشمنی اور فخر ومقابلہ پیدا ہوجائے گا جس کااثر گھر میں موجود افراد یعنی اولاد اور خاوند پر بھی پڑے گا جو کہ ایک نقصان دہ چیز ہے اور یہ نقصان ختم کرنے کے لیے تعدد زوجات کی ممانعت ضروری ہے۔

اعتراض کا جواب:

اس کا جواب یہ ہے کہ خاندان میں ایک بیوی کی موجودگی میں بھی جھگڑا پیدا ہوسکتا ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ایک سے زیادہ بیویاں ہونے کی صورت میں جھگڑا پیدا نہ ہو،جیسا کہ اس کا مشاہدہ بھی کیا گیا ہے اور اگر ہم یہ تسلیم بھی کرلیں کہ ایک بیوی کی بہ نسبت زیادہ بیویوں کی صورت میں نزاع زیادہ پیدا ہوتاہے اور اس جھگڑے کو ہم نقصان شمار کریں تو یہ سب کچھ بہت سے خیر کے پہلوؤں میں ڈوبا ہوا ہے اور پھر زندگی میں نہ تو صرف خیر ہی خیرہے اور نہ  صرف شر ہی شر۔مطلب یہ ہے کہ مقصود وہ چیز ہے جو غالب ہوتوجس کے شر پر خیر غالب ہوگی اسے راجح قرار دیاجائے گا اور تعدد میں بھی اسی قانون کو مد نظر رکھا گیا ہے۔اور پھر ہر بیوی کا علیحدہ رہنے کا مستقل شرعی حق ہے اور خاوند کے لیےجائز نہیں کہ وہ اپنی بیویوں کو ایک ہی مشترکہ گھر میں رہنے پر مجبور کرے۔

ایک اور اعتراض:

جب تم مرد کے لیے ایک سے زیادہ شادیاں کرناجائز کرتے ہوتو پھر عورت کے لیے یہ کیوں جائز نہیں یعنی عورت کو یہ حق کیوں نہیں کہ ایک سے زیادہ آدمیوں سے شادی کرسکے؟

اعتراض کا جواب:

عورت کو اس کا کوئی فائدہ نہیں بلکہ اس سے تو اس کی عزت میں کمی واقع ہوگی اور اس کی اولاد کا نسب بھی ضائع ہو گا۔اسلیے کہ عورت نسل بننے کا مقام ہے اور نسل کا ایک سے زیادہ مردوں سے بننا جائز نہیں۔ اسی طرح اولاد کی تربیت کی ذمہ داری بھی ضائع ہوگی اور خاندان بکھر جائے گا ۔اولاد کے لیے باپ کے روابط ختم ہوجائیں گے جو اسلام میں جائز نہیں اسی طرح یہ چیز عورت کی مصلحت میں بھی شامل نہیں اور نہ بچے اور معاشرے کی مصلحت میں ہے۔(واللہ اعلم)(شیخ محمد المنجد)
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ نکاح و طلاق

ص391

محدث فتویٰ

تبصرے