السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
٭ یہ حدیث حضرت ابو امامہ سےمسند احمد ( 5؍ 265،266) کےعلاوہ تفسیر ابن ابی حاتم ، طبرانی میں بھی مروی ہے، اس کی سند میں علی بن یزید الالہانی ہیں اوروہ ضعیف ہیں( مجمع الزوائد 5؍159) اورحضرت ابوذر کی حدیث مسند احمد 5؍178 کے علاوہ تفسیر عبدبن حمید ، اور الاصول الحکیم الترمذی ، صحیح ابن حبان ، حاکم ، تاریخ ابن عساکر میں بھی مروی ہے۔یہ روایت بھی سند ا ضعیف ہے، مسند کی سند میں ابو عمر الدمشقی واقع ہیں اور وہ ’’ متروک ضعیف ،،ہیں ۔اور ابن حبان کی سند میں ابراہیم بن ہشام بن یحیی بن یحیی واقع ہیں ، اور ان کو اگر چہ ابن حبان نےثقات میں ذکر کیا ہےلیکن ابو حاتم ۔ ابوزرعہ نےان کو ’’ کذاب ،، اورذہبی نے ’’متروک،، کہا ہے، اورعلی بن الحسین بن الجنید نےکہا ہے ’’ ینبغی ان لا یحدث عنہ ،، (میزان الاعتدال ( 2442) 1؍ 72) ، لسان المیزان ( 1؍ 122، 8؍ 258 ) معلوم ہواکہ ایک لاکھ چوبیس ہزاروالی روایت بجمیع طرقہ ضعیف ہےلیکن ایسی ضعیف ہےکہ اس کوموضوع کہا جائے ۔عینی اورحافظ اورشوکانی نے اس پر سکوت اختیار کیا ہے۔ (محدث بنارس ؍ شیخ الحدیث نمبر )
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
حدیث ’’ اذا تحیرتم واستعینوا باالصبر والصلوۃ،، .اور حدیث ’’ اذا تحیرتم فی الامور ، فاستعینوا من اصحاب القبور ،، موضوع ہے۔ کذا ذکرہ السیوطی فی تیسیر المقال فی نقد الرجال ، پس جوکوئی اس پراعتبار کرے گاگمراہ ہوگا ، وقال الرسول ﷺ :’’ من عمل عملا لیس عليه امرنا فهو رد ،، (البخاری ) ، صبر صلوۃ سے اس طرح اعانت طلب کرےکہ کہا پکڑے اور استقامت اختیار کرنے اورنماز پر مداومت کرے ۔ او رصبر دو طرح کا ہوتا ہے:
ایک : صبر عن الشئی ۔
دوسرا : صبر علی الشر۔
فقروفاقہ اورعدم حصول مطالب پر صبر کرنے کوصبر عن الشئی کہتے ہیں ، اورصلوۃ اور صوم وکف عن المعاصی اوربلایا پر صبر کو صبر علی الشر کہتے ہیں ۔ پس ان دو قسموں پر سہارا پکڑنے اور استقامت کرنے سے اعانت حاصل ہوتی ہے۔ عبدالسلام
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب