السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
یزید کوعوام گندہ ذہنی سےبچانے کےلیے یہ حدیث (کہ قسطنطنیہ پر جوسب سے پہلی جماعت حملہ کرے گی وہ جنتی ہوگی) کس کتاب میں ہے ؟ اس کا معہ صفحات کےحوالہ دیں ۔نیز یزید کی اُس جماعت میں کیا پوزیشن تھی ؟ کیا تاریخ سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے؟سائل عبدالخالق رحمانی
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
متعلقہ حدیث بخاری متضمن منقبت یزید بن معایہ ( بن ابی سقیان )
(1)قسطنطنیہ پر سب سےپہلی حملہ کرنے والی جماعت نہیں ، بلکہ سب سےپہلی سمندری لڑائی لڑنے والی جماعت ، جس کےمفید مطلب الفاظ یہ ہیں ’’ نام رسول لله صلي الله عليه وسسلم ثم استيقظ وهو يضحك ، قالت : فقلت : و مايضحكك يا رسول لله ، قال : ناس من امتي ، عرضوا علي غزاة في سبيل الله ، يركبون ثبج هذا البحر ، ملوكا علي الأسر-ة أو مثل الملوك علي الأسرة ، قالت ام حرام: فقلت : يا رسول الله ! ادع الله أن يجعلني منهم ، فدعا لها رسول الله ﷺ ،، ( بخاري في باب الدعا ء بالجهاد (كتا ب الجهاد 3/ 201) كتاب الرؤيا (باب الرؤيا بالنهار 8/73) کتاب الأستيذان (باب من زار قوما فقال عندهم 7/ 40 )ومسلم (كتاب الأمارة باب فضل الغزوفي البحر ( 1912)3/1518 ) وابو داؤد (كتاب فضائل الجهاد باب ماجاء في البحر ( 1645)4/178)والترمذي (كتاب فضائل الجهاد باب ماجاء في البحر (1645)4/178)والنسائي (كتاب الجهاد با ب فضل الجهاد في البحر 6/ 40)’’ قال العيني : قوله : ملوكا ، قال ابو عمر: أرادأنه رأي الغزاة في البحر علي الأسرة في الجنة ، ورؤيا الأ نبياء اعليهم السلام وحي ، يشهد له قوله تعالي : علي الا رائك متكؤن ، وبه جزم ابن بطال ، حيث قال : إنما رآهم ملوكا علي الأسرة في الجنة في رؤيا ، وقال القرطبي : يحتمل أن يكون خبرا عن حالهم في غزوهم ايضا،، انتهي ( عمدةالقاري 6/ 535).
اس حديث سے حضرت معاویہ کی منقبت عیاں ہےکیوں کہ سب سے پہلی جماعت ( جس میں اُم حرام رضی اللہ عنہااپنے شوہر عبادۃ ابن الصامت کےساتھ گئی تھیں ) حضرت عثمان کی خلافت میں حضرت معاویہ کےساتھ 28ھ یا 27 ھ میں جزیرہ قبرس پر حملہ آور ہوئی۔عینی 4؍ 84؍87 وقسطلانی 5؍101۔6؍ 230 ) یہ واقعہ تاریخ کی ہر معتبر کتاب میں موجود ہے جس کا انکا رنہیں کیا جاسکتا ۔
اور قسطنطنیہ پر سب سےپہلے حملہ کرنے والی جماعت کی منقبت وشرف والی حدیث بخاری 3؍ 232 کتاب الجہاد باب قتال الروم میں موجود ہے، جس کی مفید مطلب الفاظ یہ ہیں :’’ ثُمَّ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَوَّلُ جَيْشٍ مِنْ أُمَّتِي يَغْزُونَ مَدِينَةَ قَيْصَرَ مَغْفُورٌ لَهُمْ»، فَقُلْتُ: أَنَا فِيهِمْ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: «لاَ»انتهي .قال : العيني : ’’ ذكر أن يزيد بن معاوية غزا بلاد الروم حتي قسطنطينة ، ومعه جماعات من سادات الصحابة ، منهم ابن عمروابن عباس وابن الزبير وأبو أيوب الانصاري ، كانت وفاة أبي أيوب الأنصاري هناك قريبا من سورالقسطنطنيه ،،وقال صاحب المرآة : ’’ الأ صح أن يزيد ابن معاوية غزا القسطنطينه في سنة اثنتين وخمسين ، وقيل سيرة معاوية جيشا مع سفيان عوف الي القسطنطنية فأوغلو بلاد الروم ، وكان في ذلك الجيش ابن عباس وابن عمرو ابن الزبير ابو أيوب الأنصاري قال العيني : الأ ظهرأن هولاء الصحابة في خدمته ،، ( عيني 6/ 649).
اورقسطلانی لکھتے ہیں:’’وكان أول من غزا مدينة قيصر يزيد بن معاوية ، ومعه جماعة من سادات الصحابة كابن عمرو ابن عباس وابن الزبير وأبي أيوب الأنصاري ، وتوفي بهاسنة اثنتين وخمسين من الهجرة ،، انتهي .یہ حدیث منقبت یزید پرصاف دلالت کرتی ہے، چنانچہ مہلب کہتے ہیں:’’ في هذا الحديث منفبة لمعاوية ، لأنه أول من غزا البحر ، ومنقبة لولده يزيد ، لأ نه أول من غزا مدينة قيصر ،، انتهي (قسطلاني 6/ 23) اس جنگ قسطنطنیہ میں جس میں کبار صحابہ شریک تھے ۔یزید امیر جیش رہا ہو۔جیسا کہ عام اصحاب سیر لکھتے ہیں یا مامور اور ایک ادنی سپاہی کی حیثیت سےشریک رہا ہو۔جیسا کر عینی کی رائے ہے۔بہر حال اس کی منقبت ثابت ہےکیوں کہ آں حضرت ﷺ نے تمام شرکاء کےحق میں ’’ مغفور الہم ،، فرمایا ہے۔
لیکن یہ استدلال ابن التین وابن المینر کو، او ران کی تقلید میں عینی کو، اورکہا جاتا ہے کہ قسطلانی کوبھی پسند نہیں ہے۔چنانچہ قسطلانی لکھتے ہیں:’’ وأجيب بأن هذا ( يعني ظن أن يزيد بن معاوية داخل في قوله مغفور له ) جار علي طريق الحمية البني أمية ، ولا يلزم من دخوله في ذلك العموم ، أن لا يخرج بدليل خاص ، إ ذ لا خلاف أن قوله عليه السلام : مغفورلهم مشروط بكونه من أهل المغفرة ، حتي لو ارتد واحد ممن غزاها بعد ذلك ، لم يدخل في ذلك العموم اتفاقا ، قاله ابن المنير ، وقد أطلق بعضهم فيما نقله المولي سعد الدين اللعن علي يزيد ، لما أنه كفر حين أمر بقتل الحسين واتفقوا علي جواز اللعن علي من قتله أو أمر به أو أجاز ه ورضي به، والحق أن رضا يزيد بقتل الحسين واستبشار ه بذلك ، و:إهتانة أهل بيت النبي صلي الله عليه وسلم مما تواتر معناه وإن كان تضاصبلها آحادا ، فنحن لا نتوقف في شأنه ، بل في إيمانه لعنة الله عليه وعلي أعوانه وأنصاره ،، انتهي ( هندي 5/ 101،مصري 2/ 30).
ابن التين ، ابن المنبر ، عيني ، قسطلاني ان چاروں شراح بخاری کویہ تسلیم ہےکہ یزید اس جیش میں تھا اورکیوں نہ تسلیم ہو جب کہ تمام کتب سیر ومغازی اس پر متفق ہیں ۔( تاریخ الامم الاسلامیہ للعلامہ الخضری ودیگر کتب تاریخ اسلام ) ۔
لیکن ا س امر میں کلام ہےکہ یزید آں حضرت ﷺ کےارشاد ’’ مفغور لہم ،، کامصداق ہے، یہ ان کومسلم نہیں ۔دلیل عدم تسلیم کی صرف یہ ہےکہ مفغور ہونا مشروط ہے مغفرت کی اہلیت وصلاحیت رکھنے کےساتھ ۔ اس لیے کہ اگر اس جنگ میں شرکت کرنے والوں میں سے کوئی بعد میں مرتد ہوگیا ہو، تو بالاتفاق اس عموم مغفرت میں داخل وشامل نہیں ہوگا ۔
لیکن یہ جواب اوردلیل تعقب بالکل مہمل ہے۔آں حضرت ﷺ نے پوری جماعت پربلا استثنا ء احدے ’’ مغفورلہم ،، ہونے کا حکم لگایا ہے ۔اس لیے یزید بھی بلاشبہ اس میں داخل ہے۔کیوں کہ اُس میں بوجہ اس کےمسلمان ، غیر مشرک ہونے کے مغفرت کی اہلیت قطعا موجود تھی۔خلیفہ ہونے سےپہلے زیادہ سے زیادہ وہ بعض فسقیہ امور کامرتکب تھا ، اورخلافت کےبعد اس کاثبوت کہ وہ حسب سابق ان امور فسقیہ میں مبتلا وملوث تھا بہت مشکل ہے ۔وہ کبھی مرتدنہیں ہوا۔اورنہ اس کےحق میں ایمان واسلام سےخارج کرنے والی کوئی چیز ثابت کی جاسکتی ہے۔(افترآت وبہتانات ۃسےبحث نہیں ) پس ایسی حالت میں ’’ ان اللہ لا یغفران یشرک بہ ویغفر مادون ذلک لمن یشاء ،، ( النساء : 48 ) کے ہوتے ہوئے اس کے ’’مغفور لہم ،، کےمصداق ہونے میں تردد کرنا ۔خلاف النصاف ہے۔ہم یزید کومعصوم نہیں سمجھتے ۔لیکن افتراپر دازی کےسخت مخالف ہیں ۔اس سےیقینا غلطیاں سرزد ہوئیں ۔سب سےبڑی غلطی اورگناہ عظیم جنگ حرّہ کابرپا کرنا ہے ۔لیکن ان غلطیوں یا کبائر کومخرج من الملۃ قرا ردینا مشکل ہے۔
قسطلانی کا مستدل پرحمایت وعصبیت بنوامیہ کا الزام لگانا ’’ ان بعض الظن اثم ،، ( الحجرات : 12) کامصداق ہے۔اس لیے اس کی طرف توجہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔باقی رہا کسی غیر معلوم اورمجہول الذات والحال رافضی کا یہ دعوی کہ ، یزید قتل حسین سےخوش تھا اوراس نےاہل بیت کی اہانت وتذلیل کی ۔ونیز اسی نے حسین کوقتل کرنے کا حکم دیا تھا ۔اس لیے وہ کافر ہےاور کفر پرمرا ۔بنابیریں اس پر لعنت بھیجنا جائز اورمباح ہے۔کیوں کہ اس بات پرسب لوگ متفق ہیں کہ قاتل حسین اورقتل حسین کا حکم دینے والا اور اس کوجائز سمجھنے والا اور قتل حسین سےخوش ہونے والا سب پرلعنت کرنی جائز ہے۔سویہ محض بازاری گپ ہےکسی معتبر روایت سےہرگز یہ ثابت نہیں کہ یزیدنے حضرت حسین کوقتل کرڈالنے کا حکم دیا تھا ، یا ان کے قتل کردیئے جانے سےخوش ہوا تھا ،یا اس کو جائز سمجھتا تھا ، بلکہ تاریخ کی معتبر کتابوں سےخود ان ہرسہ امور کا خلاف ثابت ہے۔ونیز بالکل غلط ہےکہ حضرت حسین کے قاتل غیر مستحل یا اس کا حکم دینے والے یا اس سےخوش ہونے والے کےکفر اور ان پرلعن وطعن کےجواز پرسب کا اتفاق ہے۔یہ باتیں محض جھوٹ اور بےبنیاد ہیں ۔تاریخ الخلفاء میں بعض ایسی باتیں موجود ہیں لیکن یہ معلوم ہےکہ سیوطی ’’ حاطب لیل ،، اورجامع رطب ویابس ،، اور ’’ حامل غث وسمین ،، ہیں ، ونیز یہ باتیں بالکل بےسند لکھی ہیں۔اس لیے بھی ان کا کچھ اعتبار نہیں ۔تعجب ہے’’ ملا سعداللہ ،، پرکہ بغیر تنقید کے ایسی بے سروپاباتیں نقل کردیں ۔ان سے زیادہ تعجب ’’قسطلانی ،، پر ہے کہ ایسی غیر محقق بات او رخلاف واقعہ امر لکھ کر صرف یہ کہہ کرخاموش ہوگئے : ’’ومن يمنع يستدل بأنه عليه الصلوة والسلام نهي عن لعن المصلين ، ومن كان من اهل القبلة ،، انتهي.
در حقيقت اس ٹھوس دلیل کا مجوزین لعن کے پاس کوئی معقول جواب نہیں ہے۔ ( مصباح بستی محرم 1371ھ)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب