سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(23)حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لیے یہ خطاب اسداللہ بظاہر شیعوں کا گھڑا ہوا معلوم ہوتا ہے؟

  • 15849
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-19
  • مشاہدات : 5113

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

اسداللہ کےخطاب اورلقب میں خوبی ہے جو حضرت علی ﷜ کےلیے رواج کیا ہےاور اس لقب کے ساتھ مشہور ہوگئے ۔کیا یہ خوبی حضرت علی ﷜ ہی کےلیے پائی جاتی تھی؟ اوردیگر خلفائے راشدین وصحابہ کرام میں نہیں پائی جاتی تھی ؟ جنگل کاشیر بھی تواللہ ہی کا شیر ہےپس کسی انسان کواس لقب اور وصف کےساتھ کس زمانہ سےذکر کیاجاتاہے۔حضرت علی ﷜ کواسداللہ کا خطاب کس نےدیا اور خطبہ جمعہ میں ان کو اس لقب اوروصف کےساتھ کس زمانہ سےذکر کیاجاتا ہے۔حضرت علی ﷜ کےلیے یہ خطاب بظاہر شیعوں کا گھڑا ہوامعلوم ہوتاہے؟  میر حسن شاہ یحیی گنج لکھنؤ


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

یہ ایک کھلی ہوئی حقیقت ہے اورمشہور بات ہےکہ جر یاوردلیر ، شجاع اور بہادر شخص کوبطور تشبیہ یا استعارہ شیر(اسد)کہا جاتا ہے(ملاحظہ ہو: بلاغت کےفن ثانی ، علم بیان کےمباحث ) اور اللہ کی راہ اور اس کےدین کی نصرت وحمایت میں شجاعانہ امتیازی کام کرنے والے کواللہ کی شیر ( اسداللہ )کہا جاتاہے ۔اسی بنا پر حضرت ابوبکر ﷜ اورحضرت عمر﷜ نےجنگ حنین کےموقع پر ابوقتادہ انصاری ﷜ کواللہ کےشیروں میں سے ایک شیر کہاتھا ۔چنانچہ فرمایا :’’لاهاالله إذا لا يعمد إلي أسد من إسدالله ، يقاتل عن الله ورسوله فيعطيك سلبه ،،( بخاری عن ابی قتادۃ 5؍ 101 ،مسند احمد عن انس 3؍ 19 ) اورحضرت جبر ائیل علیہ السلام نے حضرت حمزہ ﷜ کےمتعلق قرمایا ’’إن حمزة مكتوب في السماء ، أسدالله وأسد رسوله ،، ( فتح الباري بحواله ابن هشام (2/96) ذكر قتل حمرة 7/371) اسي حديث كي روسےبن سعد نےحمزہ ﷜ کاترجمہ ’’اسداللہ واسد رسولہ ،، کے وصف سےشروع کیا ہے( طبفات ابن سعد طبع لیدن 3؍8) اوراسی صفت شجاعت وجرات کومد نظر رکھ کر حضرت انس ﷜ نےاپنے اورتمام صحابہ کےمتعلق فرمایا :’’ خطبنا أبو بكر وكنا كالثعالب ، فما زال يشجعنا حتي صرنا كالأسود ،، (منهاج السنه 2، 156)-

اس میں شک نہیں کہ جنگل کاشیر بھی اللہ ہی کاشیر ہے ۔لیکن بعض انسانوں پرمطلق شیر یابعض شخصیتوں پرلفظ ’’شیر ،، کواللہ کی طرف منسوب سلسلہ میں شجاعانہ امتیازی کارنامے انجام پذیر ہوئے۔دنیا کی سب اونٹنیاں اللہ ہی کی ہیں ۔لیکن حضرت صالح  علیہ السلام کی اونٹنی کو خصوصیت کےساتھ ’’ناقۃ اللہ ،،کہا گیا ۔دنیا کےتمام گھر اورعبادت خانے اللہ ہی  کےہیں ۔لیکن خانہ کعبہ کوخاص طور پر’’ بیت اللہ ،، کہا گیا ۔تمام تلواریں اللہ ہی کی ہیں لیکن حضرت خالد ﷜ کوسیف من سیوف للہ کہاگیا ۔تخصیص کو جووجہ ان مثالوں میں ہے وہی صورت مسؤلہ میں بھی ہے۔

جولوگ حضرت علی ﷜ کواسداللہ ( شیرخدا) کہتے ہیں ان کےنزدیک اس لقب کاسبب حضرت علی ﷜ کی شجاعت وجرات اوردلیری وبہادری ہے۔لیکن یہ سمجھنا کہ اس تلقیب وتوصیف کےلیے جس مجاہدانہ دینی شجاعت اورطبعی جرات کی ضرورت ہےوہ صرف حضرت علی ﷜ میں تھی اور کسی دوسرے صحابی میں یہ خوبی نہیں تھیں قطعاً غلط اوریکسر باطل ہے۔حضرت علی ﷜ یقینا بہادر اورشجاع تھے ۔لیکن حقیقت اور وقعہ یہ ہے کہ آں حضرت ﷺ کےبعد صحابہ کرام ﷜ میں سب سے زیادہ جری اور شجاع حضرت ابوبکر ﷜تھے ، ان کے بعد شجاعت میں حضرت میں عمر ﷜ کادرجہ ہےاور بقیہ تمام صحابہ جن میں حضرت علی﷜ بھی داخل ہیں بلاشبہ اس وصف میں حضرات شیخین سےکمتر ہیں ۔شجاعت کی جوصورتیں ذکر کی جاتی ہیں:

(1)خطرات ومصائب میں دل کا قوی اورثابت ومطئن رہنا اورارادہ کی پختگی اوصبر واستقلال وعدم جزع ۔

(1) میدان جنگ میں زیادہ سےزیادہ دشمنوں کوقتل کرنا ۔ظاہر ہےکہ پہلی قسم شجاعت کی اعلی ترین صورت ہےاور اس میں حضرت ابوبکر وعمر رضی اللہ عنہما کی کوئی صحابی بھی ہمسر نہیں کرسکتا ۔جنگ بدر ، آں حضرت ﷺ کی وفا ت تجہیز جیش اسامہ۔مرتدین سےجہاد کےمواقع میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نےجس بے نظیر قلبی شجاعت اور صبر وسکون اوراطمینا ن وقوۃ یقین اورارادہ کی پختگی کا اظہار کیاہے، دنیائے اسلام اس کی نظیر نہیں پیش کرسکتی ۔رہا دعوی کہ حضرت علی ﷜ دینی جہاد میں تمام صحابہ سے اعلی وارفع تھے اوران کےجیسے مجاہد انہ کارنامے کسی صحابی سےنہیں صادر ہوئے تویہ بھی قطعاً غلط اور لغو ہے۔جہاد کی تین قسمیں ہیں :

(1)زبانی اور تبلیغی جہاد۔

(2)  میدان جنگ میں جنگی تدبیروں اورمشوروں اور مشوروں کےذریعہ جہاد ۔

(3) آلات جنگ کےذریعہ جسم کا جہاد۔

پہلی دونوں صورتیں جہاد کی اعلی اور افضل ترین قسمیں ہیں ۔اورتیسری قسم جہاد کامعمولی مرتبہ ہے۔ہرمسلمان کایہ عقیدہ ہےکہ آں حضرت ﷺ سےبڑھ کر شجاع اورجری اورآپ سے زیادہ مجاہد فی الدین ہوناتو درکنار ،اس وصف میں آپ کا کوئی برابر بھی نہیں ہے۔لیکن کیایہ حقیقت نہیں ہےکہ آپ ﷺ نےاپنے ہاتھ سےساری عمر میں صرف ایک دشمن اسلام ابی بن خلف کوجنگ احد کےموقعہ پر قتل کیا ہے۔معلوم ہواکہ  جہاد بالید جہاد کی ایک ادنی ترین نوع ہے۔البتہ جہاد کی پہلی دونوں قسموں کی ساتھ آں حضرت ﷺ بدرجہ اتم متصف تھے ۔اور آپ کاشریک وسہیم نہیں ہے۔اور تیسیری قسم میں بھی حضرت علی ﷜ تنہا ومنفرد نہیں ہے اس وصف میں حضرات شیخین ﷜ بھی ان کےشریک ہیں اور بہت سےصحابہ توحضرت علی ﷜ کےبرابر ہی نہیں بلکہ ان سے بڑھ کرہیں ۔اگر حضرت علی ﷜ آپ ﷺ کےساتھ غزوات میں شریک رہے او ران کےساتھ میں علم رہتا او ر کسی جنگ میں ان کا فرار منقول نہیں ، توحضرات شیخین رضی اللہ عنہما بھی ٖآنحضرت ﷺ کےساتھ تمام غزوات میں شریک رہے اورکسی معتبرروایت سےان کافرار ثابت نہیں ۔بلکہ حضرات حضرات شیخین رضی اللہ عنہما جن بعوث وسرایا میں میرابنا کر بھیجے ان کی تعدادحضرت علی ﷜ کےبعوث وسرایا سےزیادہ ہے۔جنگ بدر میں حضرت علی ﷜ کےمقتولین کی تعداد زیادہ سےزیادہ گیارہ بتائی جاتی ہے۔ان میں بھی چھ کےمتعلق اختلاف ہےکہ ان کے قاتل علی ﷜ ہیں یا کوئی اورصحابی ۔حضرت براء بن مالک نےعلی سبیل المبارزہ بلا شرکت غیر ے مختلف جنگوں میں سو کافروں کوقتل کیا ۔اورخالد بن ولید ﷜ کے مقتولین کی تعداد توبے شمار ہے۔عزوہ مؤتہ میں ان کےہاتھ میں آٹھ تلوارین ٹوٹ ٹوٹ کر گرنے کا واقعہ کس سے پوشیدہ ہے؟کیا حضرت علی ﷜ کوبھی یہ فخر ہے ؟ حضرت طلحہ ، زبیر ،سعد بن ابی وقاص ، حمزہ ،عبیدہ بن الحرث ، مصعب بن عمیر ، سعد بن معاذ ، ابو دجانہ ﷢ کےمشہور امتیازی جنگی کارمے کس سےمخفی ہیں ۔ان میں سےہر ایک حضرت علی ﷜ کا ہمسر اورشریک وسہیم ہے۔

جنگ خندق میں حضرت علی ﷜ کاعمرو بن عبدود جیسی معروف شخصیت کوقتل کرناکوئی غیر معمولی بات نہیں ہے، اس واقعہ کے متعلق روایات میں جس مبالغہ سےکام لیا گیا ہے،وہ قطعا صحیح روایات کےخلاف ہے۔

خیبر کےبعض قلعے عنوۃ ( زبردستی ) اور بعض صلحا فتخ ہوئے اور اس میں شک نہیں کہ قلعہ قموص حضرت علی کی قیادت میں فتح ہوا ، لیکن وہ محض آں حضرت ﷺ کی دعا کی برکت سے ، جس طرح اس سے پہلے دوسرے قلعے دوسرے صحابہ کی قیادت میں آنحضرت ﷺ کی برکت سےفتح ہوئے ۔پس حضرت علی ﷜ کویہاں بھی کوئی امتیازی شرف حاصل نہیں ہے۔قلعہ کےدرکو جوسرتا پا پارہ جنگ تھا اور جس کوایک روایت کومطابق ،واقعہ کےبعد ایک روایت کےمطابق آٹھ آدمی اور دوسری روایت کےمطابق چالیس آدمی نہ اٹھا سکے۔اکھاڑ کراس سےسپرد  کاکام لینے کی راویتیں بازاری قصے ہیں ۔علامہ سخاوی نےان روایتوں کےمتعلق تصریح کردی ہےکہ ’’ کلھا واہیۃ ،،سب لغو روایتیں ہیں ۔امام ذہبی نےاس رویت کو’’منکر ،،بتایا ہے۔تعجب ہےامام حاکم اورصاحب کنزالعمال اورصاحب مجمع الزوائد وصاحب اسدالغابہ پرکہ انہوں نے حضرت علی ﷜ کےمناقب میں اس جیسی بے  سروپا لغوروایتیں اپنی کتابوں میں بھر دیں ۔حضرت علی ﷜ کامرحب یہودی کوقتل کرنا مختلف فیہ مسئلہ ہے۔مغازی موسی بن عقبہ ۔مغازی کی معتبر ترین کتا ب ہےاس میں برویت حضرت جابر وسلمہ بن سلامہ ومجمع بن حارث ﷢ مرحب کاقاتل محمدبن مسلمہ ﷜ کوبتایا ہے۔(زادالمعاد 3؍341) اسی لئے ائمہ مغازی محمد بن اسحق وموسی بن عقبہ اورواقدی مرحب کا قاتل محمد بن مسلمہ ہی کوبتانے ہیں:’’ خالف ذلك أهل السير ، فجزم ابن اسحق وموسي بن عقبة والواقدي بأن الذي  قتل مرحبا ،هو محمد بن مسلمة ، كذاروي احمدبإسناد حسن عن جابر ، وقتل إن محمد بن مسلمة كان بارزه فقطع رجليه فاجهز عليه علي ،، ( فتح الباري 7/478).-

آں حضرت ﷺ کےوفات کےبعد ایران اورروم کی کسی جنگ میں حضرت ﷜ کی شرکت ثابت نہیں ہے۔تعجب ہےکہ ان کی شجاعت وبہادری فقط آں حضرت ﷺ کےزمانے تک کیوں رہی ۔اورآپ ﷺ کےارتحال کےساتھ ان کی شجاعت کیوں ختم ہوگئی ، شجاعت وجرأت کےاظہار کاسب سےزبردست اورضروری موقعہ وہ تھا جب بقول  اخوان یوسف ، خلافت پر دوسروں نے غاصبانہ اورظالمانہ قبضہ کرلیا تھا مگر افسوس ! شاید تقیہ کی نذر ہوگئی ہوگی ۔جنگ جمل اورنہر وان میں حضرت علی ﷜ بظاہر منصورہ وغالب تھے ، لیکن یہ محض اس وجہ سےکہ ان کی فوج کی تعداد فریق مقابل سےکئی گنا زیادہ تھی ۔لیکن باایں ہمہ وہ ان پر پورا قابوحاصل نہ کرسکے اور یہ فتنہ آخر دم تک دبانہ سکے ،اور ہمیشہ ان  معاملات کی وجہ سےمضطرب وپریشان وغیر مطمئن رہے۔اس سے ان کی جنگی تدبیر وں اورسیاست میں مہارت کی حقیقت بھی واضح ہوجاتی ہے

پس ہمارے نزدیک صحیح بات یہ ہےکہ حضرت علی ﷜ شجاعت اورجہاد فی الدین کی ادنی ترین قسم کےاعبار سےبلا شک و شبہ شجاع اورجری تھے ۔یہاں تک کہ دشمن بھی اس کا اقرار کرنے پرمجبور تھے ۔چنانچہ اسید بن یا س بن زنیم کنانی ،قریش کوان کےخلاف ابھارتا ہوا کہتا ہے:

 في كل مجمع غاية أخزاكم                جذع ابرعلي المذاكي القرح

لله دركم لماتذكروا                   قديذكرالحر الكريم ويستحي

هذا ابن فساطمة الذي أفناكم        ذبحا بقتله بعضه لم يذبح

اين الكهول واين كل دعا مة ؟       في المعمضلات وأين زين الأبطع ؟

لیکن جہاد بالید کی یہ خوبی ان کے ساتھ مخصوص نہیں تھی ۔متعدد صحابہ ان کےاس وصف میں شریک ہی نہیں ،بلکہ ان سےبڑھ کر شجاع اورمیدان جنگ کےمشہور شہسوار تھے۔اورشجاعت کی اعلی ترین صورت اورجہاد فی الدین کی افضل ترین دونوں قسمیں توآں حضرت ﷺ کےبعد حضرات شیخین کےساتھ مخصوص تھیں۔پس حضرت علی کوشیر خدا (اسداللہ ) کا لقب او رخطاب دنیا کسی بنیاد اوراصل پر مبنی نہیں ہےان سےزیادہ اس لقب کےمستحق حضرت ابوبکر وعمر،طلحہ ،زبیر ، ابو دجانہ ،خالد بن ولید ،براء بن مالک ،حمزہ ﷢ وغیرہ ہیں۔

ہمارے نزدیک بلاشک وشبہ حضرت علی ﷜ کےلیے یہ لقب شیعوں کا گھڑا ہوا ہے۔حضرت علی ﷜ کواس لقب کےساتھ نہ آں حضرت ﷺ نےملقب فرمایا ہے،نہ کسی خلیفہ راشد نے ،نہ دیگر صحابہ کرام یا تابعین عظام نے ،اورنہ کسی صاحب سیرۃ ومغازی نے،بخلاف حضرت حمزہ ﷜ کےکہ جبرئیل امین علیہ السلام نےان کویہ لقب عنائت فرمایا ہے۔جیسا کہ ابن ہشام کے حوالے سےاوپر گزر چکا ہتے۔پس اگر حضرت حمزہ کو’’ اسداللہ ،، کہا جائے توبلا شبہ درست ہوگا۔

ہاں حضرت علی ﷜ کی ماں فاطمہ بنت اسد نےحضرت علی کانام دووجہوں سے(اسد )کہا تھا،:

(1)  حضرت علی ﷜ کےنانا کانام اسد تھا۔

(2)عربوں کادستور تھا کہ بطور تفاؤل اپنے بیٹوں کانام اسد۔نمر۔فہد۔کلب۔حجر ۔فہر وغیرہ رکھتے تھے ’’قال مصعب بن الزبير الزبيري : كانت فاطمة بنت أسد من هاشم ، أول هاشمية ولدت من هاشمي ،إلي أن قال . وكان اسم علي أسد ، ولذلك يقول:.

أنا الذي سمتني أمي حيدره                            كليت غايات كرية المنظره

                (المستدرك للحاكم 3/108)

حضرت علی ﷜ کانام ’’اسد ،، ہونا اس شعر سےواضح ہے۔یہ شعر مسلم حدیث نمبر (1806)3؍1432، طبری : 1579 ، زاد المعاد 3؍321 ،کنزالعمال 5؍ 275 میں موجود ہے،لیکن حضرت علی ﷜ ماں کےتجویز کرد ہ اورپسندیدہ نام کےبجائے ابوطالب کےتجویز کردہ نام علی کےساتھ معروف ومشہور ہوگئے۔علامہ ابن الجوزی فرماتے ہیں:’’ مسئلة :إن قال قائل : قد سمعنا عن علي ،أنه قال :أنا الذي سمتني امي حيدره ولا نعلم أنه كان يدعي بهذا الاسم ، الجواب : أنه لما ولد سمته امه فاطمة بنت اسد بن هاشم باسم ابيها أسد ، وسماه ابوطالب عليا،، فغلب عليه ما سماه الو طالب ، ذكره عبدالغني الحافظ ،، ( تنقيح فهو أهل الاثر ص: 377).

لیکن شیعوں نے حضرت علی کی شجاعت وجرأت کےبے اصل وبے سروپا اورگھڑے ہوئے  واقعات کی بنا ء پر ان کےبحیثیت اسداللہ کےساتھ مشہور کردیا ۔اور آہستہ آہستہ یہ لقب حضرت علی ﷜ کےلیے سینوں میں بھی رواج پذیر ہوگیا ۔سینوں میں لقب کی حیثیت سے اس وصف کےمعراج پانے کا سبب محبت اہل بیت میں غلو اور افراط ،اوران علماء کااثر ورسوخ ہےجو تفصیلی تھے ،یا تشیع ورفض کےطرف میلان ورجخان رکھتے تھے ۔یایہ نتیجہ شیعوں سےقرب ومجاورت کا ،  جیسے تعزیہ داری وغیرہ شیعوں کی ہمسائیگی کی وجہ سےسینوں میں ،اور بہت سےمشرکانہ رسم ورواج ،ہندوؤں کی مجاورت کی وجہ سےمسلمانوں میں رواج پذیر ہوگئے ہیں،اسی طرح یہ بے بنیاد لقب میں رواج پاگیا ۔افسوس ہےکہ سینوں نےاس کی تحقیق وتفتیش کی ضرورت نہیں سمجھی اورآنکھ بیدکرکے اختیار کرلیا۔

خطبہ جمعہ میں خلفائے راشدین کے تعظیمی القاب اوراہل بیت وحضرت عباس وحضرت حمزہ رضی اللہ عنہما دیگر عشرہ مبشرہ کانام لیا جانا غالباً عہدی بنی عباس کی پیداوار ہے۔جب سنی اورشیعہ کی تفریق مذہبی حیثیت سےنمایاں کی گئی اورخطبہ جمعہ میں حضرت علی ﷜ کواسداللہ الغالب کےلقب سےذکر کرکئے جانے زمانے کی تعیین افسوس ہےکہ نہیں ہوسکی۔

(محدث ج: 8ش : 10محرم 1360 ھ ؍فروری 1941ء)

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ شیخ الحدیث مبارکپوری

جلد نمبر 1

صفحہ نمبر 65

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ