السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
بیان کیاجاتا ہےکہ پل صراط ، بال سےزیادہ باریک اورتلوار سےتیز ہوگا ۔مؤمن اس پر گزر سکیں گے اور گہنگار کٹ گر جائیں گے۔اوربیان کیا جاتا ہےکہ قربان کاجانور قربان کرنے والےکوپل صراط پر سوار ی کا کام دےگا۔ ایسی صورت میں اگرب کسی گنہگار نے دنیا میں قربانی بھی کی ہوتو وہ پل صراط پر سے اپنی قربانی کےجانور پرگزر سکے گایا نہیں؟ (عبدالرحیم ،بھوپال اسٹیٹ )
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
یہ صحیح ہےکہ جہنم پرپل صراط نصب کیا جائے گااور اس پر سےلوگوں کوگزرنے کا حکم دیا جائے گا ،کوئی بغیر تکلیف کے گزر جائے گا اور کوئی تکلیف کےساتھ گزرسکے گا اور کوئی کٹ کرگرجائے گا۔ ( بخاری ومسلم:بخاری کتاب الرقاق با حسر جہنم 20507.مسلم کتاب الایمان باب معرفۃ طریق الرؤئۃ ( 182) 1؍ 163 .
لیکن یہ امر کہ پل صراط ، بال سےباریک اورتلوار سےتیز ہوگا ۔کسی صحیح مرفوع غیر مجروع ووغیرہ متکلم فیہ روایت سےثابت نہیں ۔مسلم میں ایک مطول روایت کےآخر میں ہے : قال ابو سعید الحدری : وبلعنی ان الجسر ادق من الشعر واحد من السلف ،، ( کتاب الایمان با ب معرفۃ طریق الرؤية ( 181)1؍171 )
لیکن ایک اخروی غیر محسوس امر کےبارے میں اس کے ثبوت کےلیے کسی صحابی کا ’’بلغنی ،، کہنا کافی نہیں ہوسکتا ۔بالخصوص جب کہ ابن مندہ کی روایت میں اس کےبجائے ’’ قال سعید بن ابی ھلال احد رواۃ الحدیث :بلغنی ،،(کتاب الایمان لابن مندہ 3؍781.ہے۔
ہاں بیہقی نےیہ مضمون حضرت انس سےموصولا مرفوعاً روایت کیاہے لیکن اس کی سند ضعیف ہے( فتح 11؍ 454 اور کنز العمال ) اورمستدرک حاکم میں عبداللہ بن مسعود کی ایک مطول مرفوع حدیث میں ہے: ماأنكر ه حديثا علي جوده اسناده ، وابو خالد الدالاني شيعي منحرف ،، ( اي عن السنة في ذكر الصحابة ) (التلحيص مع المستدرك 4: 552) اورمسند احمد میں حضرت عائشہ سےمرفوعا مروی ہے: ولجهنم جسر أدق من الشعر وأحد من السيف ،، لیکن اس سند میں عبدلله بن لهيعه ہیں اوریہ ضعیف ہیں( ابن کثیر 3؍ 169 مجمع الزوائد ، 10؍ 359 کنز العمال )
دوسری بات کہ قربانی کاجانو ر پل صراط پرسواری کاکادے گا، یہ بھی قابل اعتبار ولائق التفات روایت سےثابت نہیں ، اور جب یہ ثابت ہی نہیں توقربانی کےجانو رپر کسی گنہگار کےگزرنے کاسوال ہی نہیں پیدا ہوتا ۔حافظ تلخیص الحبیر 4؍ 138 میں لکھتے ہیں :
’’ حديث : عظموا ضحايا كم ، فإنها علي الصراط مطايا كم ، لم أره ، وسبعه في الوسيط ، وسبقهما في لنهاية، قال : وقال ابن الصلاح : هذا الحديث غير معروف ولا ثابت فيما علماه ،، انتهي وقد اشارابن العربي إليه في شرح الترمذي بقوله :’’ ليس في فضل الأ ضحية حديث صحيح ، ومنها قوله : أنها مطايا كم إلي الجنة ،’’ قال الحافظ : أخرجه صاحب مسند الفردوس من طريق ابن المبارك عن يحيي بن عبدلله بن موهب عن أبيه عن ابي هريرة رفعه : استقرا هو اضحاياكم فإنها مطايا كم علي الصراط ، ويحيي ضعيف جداً ،، (مزيد تفصيل کے لیے سلسلہ الاحادیث الضعیعۃ ( 74 ) 1؍ 102 ) ۔
( محدث دہلی ج :9 ش: 7 شوال 1360 ؍ نومبر 1941ء)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب