السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
نوازل یا مقدمات کےسلسلہ میں طلبہ کومجتمع کرکے بخاری شریف ختم کرانا جائز ہےاگر جائز ہے وتوجہ جواز کیا ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
صحیح اور دجائز مقصد کےلیے بخاری شریف ختم کرنا ، دوسروں مثلا: علماء وطلباء سے ان کومجمتع کرکے یا بغیر اجتماع کےختم کرانا جائز اورمباح ہے۔اس مشہور ومعروف طریقہ کی مخالفت میں سب سے پہلے ایک از ہری فاضل نے،جامع از ہر کے علماوفضلاء نےفع وباء ہیضہ کی غرض سےبخاری شریف ختم کی تھی۔جمادی الاولی 1320 ہجری میں مصر کےکسی علمی رسالہ میں ایک تیز وتندمقالہ شائع کرایا تھا، جس میں بجز سطحی باتوں کےکوئی ٹھوس اورمعقول بات نہیں تھی ۔بہر کیف جواز اور اباحت کی دو وجہیں ذکر کی جاتی ہیں:
(1)دیگر کبت احادیث کےخلاف صحیح بخاری کےبیشتر تراجم ابواب آیات قرآنی پرمشتمل ہیں، ونیز کتاب التفسیر کی وجہ سےبھی اس میں بہت زیادہ قرآنی آیات آگئی ہیں، اس کامتن دیگر کتب احادیث کےمتون سےعلی اسبیل القطع اصح ہے، اورکتابوں کی نسبت ا س میں احادیث قدسیہ زیادہ ہیں۔نیز اس میں صحیح ترین دعاؤں اوراذکارکاذخیرہ موجود ہے۔اوریہ معلوم ہےکہ حدیث کی دوسری کتابیں اور مجموعے ان کھلے ہوئے ظاہری فضائل ومزایا سےخالی ہیں، یہ شرف نہ موطا کوحاصل ہےنہ مسلم کو،نہ دیگر کتب صحاح وسنن ومعاجم ومسانید واجزا ء کو، ان وجوہ سےمتن بخاری کی قرات امورخیر اوراعمال فاضلہ سےہوئی اورتوسل بالاعمال الفاظ کےجواز میں کسی مسلمان کوشک نہیں۔
كيف وقد ثبت في الصحيحين (صحيح البخاري كتاب الأدب با ب إجابة دعا ء من بروالديه 7/69، وصحيح مسلم كتاب الذكر ، باب قصة أصحاب الغار (2743)4/2099)وغيرهما ، أن النبي صلي الله عليه وسلم حكي عن الثلاثة الذين انطبقت عليهم الصخرة ، أن كلو واحد منهم توسل إلي الله بأعظم عمل ، قارتفعت الصخرة ، فعلم أن التوسل بالأعمال الفاضلة جائز ، فإنه لو كان غير جائز أو كان شركا ، لم تحصل إلا جابة لهم ، ولا سكت النبي صلي الله عليه وسلم عن إنكار مافعلوه بعد حكاية عنهم . پس مجوزین قراءۃ بخاری عندالنوازل والبلیات اس نیت سےبخاری ختم کرتے یاکراتے ہیں کہ یہ ایک صالح عمل ہے، جس کی برکت سےامید ہےکہ اللہ تعالی اس بلیہ اورنازلہ کودور فرمادیں گے اورمقصد پورا کردیں گے ، خلاصہ یہ کہ جس طرح قرآن کی تلاوت اوراس کاختم علم صالح ہےاور اس کےساتھ توسل جائز ، اسی طرح متن بخاری کی قرات بھی عمل خیر ہے پس اس کے ساتھ بھی توسل جائز ہوگا ، اگر چہ قرآن کی طرح ا س کے تمام الفاظ کامتعبد بہ ہونا منصوص نہیں ہے۔
(2)جواز وباحت کی دوسری وجہ یہ ہے کہ وہ کلمات جوشرکیہ اورکفریہ نہ ہواوران کامعنی ومفہوم معلوم ہو، ان کے ساتھ بالاتفاق رقیہ (دم ) کرنا جائز اورمباح ہے،اور کسی ایسے کلمہ کے رقیہ ہونے اوراس کےساتھ اسرقا کےجواز کےلیے یہ ضروری نہیں کہ اس کا رقیہ ہونا کتاب اللہ وسنت کےاندر منصوص ہو كما يدل عليه حديث أبي سعيد الخدري في الصحيحن (صحيح البخاري كتاب الإجازة ، باب ما يعطي في الرقية علي احياء العرب بفاتحة الكتاب 3/ 53 ، صحيح مسلم كتاب السلام،باب جوازأخذالأجرةعلي الرقيةبالقرآن (2201)4/1727) وغيرهما في قصة رقية لديغ الحي بفاتحة الكتاب اور دفع آفات بليات و کفایت مهمات وقضاء حاجات وکشف کربات وغیرہ کےلیے صحیح بخاری کی قرأت اورختم کا رقیہ نافع ہونا علماء سلف کےتجربہ میں آچکا ہے ، اسی لیے ایسے مواقع میں بطور رقیہ کے اس کی قرأت کی جاتی ہے، وهذا لا بأس به( مقدمۃ تحفۃ الاحوزی ص: 57 )
مخالفین ومانعین حسب ذیل شبہات پیش کرتے ہیں:
(1)آں حضرت ﷺ ،صحابہ ،تابعین کےمبارک زمانوں میں بھی احادیث نبوی کےبعض مجموعہ موجود تھے ۔ لیکن نہ آں حضرت ﷺ سےان صحیفوں کی قرات کےساتھ توسل یا استرقاء کاحکم یا اباحت یااجازت منقول ہےنہ صحابہ وتابعین سے۔ اگر یہ چیز مشروع ہےتو قرون مشہود لہا بالخیر میں اس کی نظیر ضرور ملنی چاہیے۔
(2) بعض دفعہ وہ مقصد حاصل نہیں ہوتا جس کے لیے بخار ی شریف پڑھی جاتی ہے۔اگر ا س کی قرات مجرب ہےتو مقصود متخلف کیوں ہوجاتا ہے؟
(3) قرآن کریم کےالفاظ وحروف اوراس کی تلاوت متعبدبہ ہیں ۔ اورحدیث خواہ وہ قدسی کیوں نہ ہو ۔اس کی شان نہیں ، پھر مقاصد خیر کےلیے قرآن کی قرا ت اوراس کا ختم کیوں نہیں اختیار کیا جاتا؟ ہمارے طرز عمل سےظاہر یہ ہوتا ہےکہ ہم قرآن سےافضل اور برتر بخار ی جانتے ہیں۔
(4) اگر اس کی قرات اور ختم میں واقعی یہی تاثیر ہے،تو پھر غیرمسلموں سےجہاد کےلیے نیزہ وشمشیر ، تیروتفنگ ، توپ اور بندوق سینکڑوں قسم کےبم ،مشین گن ، بحری اوربری جہاز ، تارپیڈ وکشتی وغیرہ کی ضرورت نہیں ۔جب ایسی ضرورت پیش آئے صحیح بخاری ختم کرادی جائے۔ دشمن بھاگ جائیں گے یاتباہ وبرباد ہوجائیں گے ۔ دورنہ جائیے ہندوستان میں اسلامی حکومت یا پاکستا ن قائم کرنےکا اس سے بڑھ کر سستا اور آسان ، مجرب اور سہل نسخہ اورکیا ہوسکتا ہے ۔ اسی طرح بم یاکسی اور سبب سےلگی ہوئی آگ بجھانے کےلیے یا آگ سے محفوظ رہنے کےلیے نہ پانی کی ضرورت ہےنہ فائر برگیڈ کی ۔آگ بجھانے اورآگ سےمحفوظ رہنے کے لیے بخاری کی قرات کافی اور وافی ہے۔ہیضہ وطاعون ودیگر امراض وبائیہ کے دفعیہ کےلیے نہ حکیم اور ڈاکٹر کی ضرورت رہی ، نہ ہزاروں قسم کی دواؤں کی ۔چوری ،ڈکیتی ، ہزنی سےمحفوظ رہنے کےلیے محکمہ پولیس کی بھی حاجت نہیں رہی ۔ کیوں کہ ان تمام امور کےلیے قرات بخاری کافی ہے۔علماء طلبہ کی چند جماعتیں ان مختلف موقع میں بخاری ختم کرنے کےلیے مخصوص ومتعین کردی جائیں اوربس ہراروں روپیہ کے اخراجات اسےنجات مل جائے گا اورسلطنت کےتمام اجتماعی امور نہایت آسانی سےانجام پذیرہوجائیں گے۔
(5) سب سے پہلے اس طریقہ کوکس نےرائج اورجاری کیا ؟
لیکن یہ تمام شبہات بالکل سطحی اور عدم تدبر کانتیجہ ہیں :
(1)مختلف اغراض ومقاصد کےلیے توسل ختم القرآن مخالفین کےنزدیک بھی جائز ہے ، لیکن نہ آں حضرت ﷺ سے مقاصد مذکور ہ بالا کےلیے توسل ختم القرآن اجتماعا یا انقراد ا کا حکم یا اس کی اباحت صراحت منقول ہے نہ صحابہ یا تابعین سے ۔ پس اگر یہ توسل جائز ہےتو آں حضرت ﷺ یا کم از کم صحابہ تابعین سے کیوں منقول نہیں ؟
(2) آں حضرت ﷺ کی مبارک زندگی میں اصحاب حاجات ، خدمت اقدس میں حاضر ہوکر آپ سےبارگاہ الہی میں دعا کی سفارش کی درخواست کرتے ،تو آپ توسل بقرأۃ القرآن کی ہدایت کےبجائے ان کےحق میں دعا فرماتے ۔ پس جس طرح آپ ﷺ کی دعا اورسفارش مقتضی عدم جواز توسل بختم القرآن نہیں ہے، اسی طرح وہ عدم جوا ز توسل بقرأۃ الاحادیث کی بھی مقتضی نہیں ہے۔
ونیز عدم نقل ،عدم وقوع یا وقوع عدم کومستلزم نہیں ہے۔ ونیز کسی چیز کی اباحت کےلیے یہ ضروری نہیں کہ وہ صراحتا ونصا بھی آپ ﷺ سے فعلاً یا تقریراً ثابت ہو۔شرع میں بہت سے ایسے امور ہیں جو مسلمانوں میں معمول بہ ہیں ۔ لیکن وہ نصاثابت ومنقول نہیں ہیں ۔بلکہ مسائل قیاسیہ مستنبطہ میں سے ہیں ونیز آں حضرتﷺ نےفرمایا :’’ماسکت عنه فهو عفو ،، (ترمذی کتاب اللباس باب ماجاء فی لبس الفراء ( 1762 ) 4؍ 220 ، ابو داؤد کتاب الاطعمة باب مالم یذکر مالم تحریمه( 2800) 4؍ 75 واللفظ له)پس اس حدیث کی روشنی میں ختم بخاری کےمخالف کوتشدد سےکام نہیں لینا چاہیے۔
(2)یہ مسلم ہے کہ آیات قرنیہ من کل الوجوہ شفاء ورحمۃ ہیں ، ہونے میں قادح نہیں ہے، اسی طرح ختم بخاری ( جومجرب ہے) کےباوجود کسی عارضی کے باعث بعض منافع مقصود ومقاصد مطلوبہ متخلف ہوجاتے ہیں ۔یہ کس نےدعوی کیا ہے کہ مقصود بہر حال حاصل ہوگا۔ آں حضرت ﷺ نےفرمایا : اگر سلیمان انشاءاللہ کہہ دیتے توان کا مقصود پورا ہوجاتا ۔لیکن باین ہمہ ہر انشاءاللہ کہنے والے کےلیے اس کے مطوب کاحاصل ہونا ضروری اوریقینی نہیں ہے۔ وهكذا في الأذكار والأدعية الأخري التي وردت فضائلهافي كتب الأحاديث .
(3) بےشک قرآن کریم اورصحیح بخاری کےدرمیان بہ فرق موجودہے ۔اورضرور موجود ہےلیکن مجوزین ختم بخاری مختلف مقاصد کےلیے قرآن بھی ختم کراتے ہیں۔وہ لوگ کب اس کے مخالف اورتارک ہیں جس مقام کےلوگ اس کا خلاف کرتے ہیں وہ غلطی پر ہیں۔اصل اس بارے میں قرآن کریم ہے اس کےبعد درجہ صحیح بخاری کاہے۔
(4) بےشک قرآن کریم اورصحیح بخاری کے درمیان یہ فرق موجود ہے۔ اورضرور موجود ہےلیکن مجوزین ختم بخاری محتلف مقاصد کےلیے قرآن بھی ختم کراتے ہیں ۔وہ لوگ کب اس کےمخالف اورتارک ہیں جس مقام کےلوگ اس کا خلاف کرتےہیں وہ غلطی پر ہیں۔اصل اس بارے میں قرآن کریم ہے اس کے بعد درجہ صحیح بخاری کا ہے۔
(4) یہ شبہ بےحد ضد اورعناد وکج فہمی پر مبنی ہے۔مجوزین ختم بخاری یہ کب ہیں کہ ان تمام مہمات میں صرف ختم بخاری پراعتماد کرنا چاہیے۔اور مادی وسائل ،ظاہری اسباب نہیں اختیار کرنےچاہیں۔آں حضرت ﷺ سے مختلف اغراض ومقاصد کے لیے مختلف آیات قرآنیہ اورادعیہ واذکار کی اجازت واباحت منقول ہے۔کیا اس اجازت اورتعلیم کایہ مقصد ہےکہ وسائل ا ور ذرائع اور اسباب عادیہ ظاہریہ سے قطع نظر کرلیا جائے اور ہاتھ پر ہاتھ دھر کر بیٹھ رہا جائے۔اور رات دن اور ادووظائف اورتلاوت قرآن میں مشغول رہا جائے ۔ وهذا لا يتقفوه به إلا غبي جاهل عن مرمي الكلام ومغزاه ، وهو بمعزل عن خطابنا .
(5) ختم بخاری کوبطور رقیہ کےسب سےپہلے رائج کرنے والے کی تعیین نہیں کی جاسکتی۔ لیکن اس عمل کی صحت کےلیے اول من سنّ ذلک معلوم کرنے کی ضرورت نہیں جبکہ معتبرادلہ سے اس کا جواز ثابت ہے۔
( محدث دہلی ج : ا ش : رمضان 1361 ھ ؍ اکتوبر 1942 ء)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب