سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(11)کسی کے وسیلے اور صدقہ کےساتھ دعا مانگنی کیسی ہے ؟

  • 15837
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-29
  • مشاہدات : 1903

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کسی کےوسیلے اورصدقہ کےساتھ دعا مانگنی کیسی ہے ؟ مثلا: ایک شخص کہتا ہےکہ اےخدا ! اپنے رسول پاک کےصدقے میں میری اس بیماری کودورکردے ۔یاقرآن  کےطفیل میں میری خطاؤں کوبخشش دے۔یا فلان بزرگ کےوسیلے اوربرکت سےہمارے اموال وجائیداد میں ترقی عنائت فرما۔بقول شخصے حضرت مولانا اسمعیل شہید رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک یہ شرک ہے،واللہ اعلم باالصواب۔اورادھر کےاکثر حنفی مولویوں سےفتویٰ پوچھا گیا۔توانہوں نے اس طریقہ دعائیہ کومستحسن قراردیا اوربعضوں نے توصرف جائز قرار دیا اوربعضوں کہا کہ بغیر وسیلہ کےکوئی دعا مقبول بارگاہ ہی نہیں  ہوسکتی۔

ان میں سےبعض نے استسقا کی حدیث پیش کی ۔اوربعضوں نے من كانت له ضرورة، فليتوضأ فيحسن وضوئه يصلي ركعتين ، ثم يدعو اللهم اسلك وااوجه اليك بنبيك محمد نبى الرحمة ،يا محمد اني اتوجه بك الي ربي في حاجتي هذه، لتقصي لي، اللهم شفعة في ............،،، (ترمذي ،نسائي ،ابن ماجه... ترمذي كتاب الدعوات باب: 119(3578) 5/569 ابن ماجة كتاب الصلاة باب ماجاء  في  صلاة الحاجة ( 1384) 1/442) :’’ منقول از حصن حصين ،، اور کسی نے درود شریف:" اللهم صلي علي محمد وسيلتي اليك وآله وسلم صلي الله عليك يامحمد ،، اور کسی نےسعد ی علیہ الرحمہ کے اشعار خدایا بحق بنی فاطمہ ؓ لخ


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

واضح ہوکہ ہرمسلمان کافرض ہےکہ اپنے تمام دینی امور اورکاموں کواللہ اور رسول کےقانون پرپیش کرے ، ارشاد ہے﴿فَإِن تَنـٰزَعتُم فى شَىءٍ فَرُدّوهُ إِلَى اللَّـهِ وَالرَّسولِ ...﴿٥٩﴾...النساء  قانون الہی اس کام کی اجازت دے توعمل میں لائے ۔نہ اجازت دے تو اس سے پرہیز کرے، ایک مومن کےلیے حجت اوردین صرف قرآن اورحدیث ہے۔اس لیے اس کو اپنا ہرعمل انہیں دونوں کسوٹیوں پر پرکھنا چاہئے۔ٹھیک اترے تواس عمل پرثابت رہے ورنہ چھوڑ دے ، جس چیز کاثبوت قرآن وحدیث اوربدرجہ آخر عمل صحابہ سےنہ ہواس کوبدعت جان کرترک کردے ۔’’ من احدث فی امرناهذا مالیس منه فهو رد،، الحدیث ( بخاری کتاب الصلح باب اذا اصطلحواعلی صلح جور فهو مردود 3/167،مسلم کتاب الاقصيه باب نقص الاحکام الباطللۃ(1718) 3/1343)

سوال میں بیان کردہ مروجہ ’’ توسل ،، یعنی :کسی کےصدقہ اوروسیلے کےساتھ دعا مانگنی ( جس میں متوسل بہ کاذی عقل ہونا ، یا زندہ ہونا ، یا اس کوہمارے توسل کاعلم ہونا، یا اس کی دعا کابھی دخل ہونا مشروط اورضروری نہیں ہوتا ) نہ قرآن کریم سےثابت ہے،نہ احادیث رسول ﷺ سے، نہ صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم سے، نہ تابعین وائمہ عظام سے ، غرض یہ کہ یہ طریقہ خیرالقرون میں موجود نہیں تھا، اس لیے بلاشبہ بدعت ہے جس سےپرہیز کرنا ضروری ہے۔

مولوی انورشاہ مرحوم لکھتے ہیں:’’ واعلم ان التوسل بين السلف ، لم يكن كما هو المعهود بيننا، فانهم اذا كانوا يريدون ان يتوسلوا باحد ، كانوايدذهبون بمن يتوسلون به ايضا معهم ليدعوالهم ،ثم يستعينون بالله ويدعونه  ويرجون الاجابة منه ببركة شموله ووجوده فيهم، (قال): أما التوسل باسماء الصالحين ، كما هوا المتعارف في زماننا ، بحيث لايكون للمتوسلين بهم علم بتوسلنا، بل لا تشترط فيه حياتهم ايضا، وانما يتوسل بذكراسماء هم فحسب ، زعما منهم ان لهم وجاهة عندالله وقبولا.فلا يضيعهم بذكراسماءهم ، فذلك امرلا احب أن أقتحم فيه، فلا أدعي ثبوته علي السلف ولا أنكره (قال) : وأما قوله تعالي :’’ وابتغو ا اليه الوسلية ،، فذلك اقتضي ابتغاء واسطة ، لكن لاحجة فيه علي التوسل المعروف بالا سماء فقط، (قال): وأجازه صاحب الدر المختار، ولكن لم يأت بنقل عن السلف ،، انتهي ( فيض الباري 3/ 433).

قلت: لم يثبت من أحد من السلف ، التوسل المعروف في زماننا ، ولا يمكن لأحد من هولاءالزائغين الضالين عن الحق أن يئبته أبدا، ولو كان بعضهم لبعض ظهيرا، ولا عجب مما احجم عنه صاحب الفيض ، أعني القول بكون التوسل المعروف بدعة، فانه قد أجازالاستفاضة من اهل القبور، فما ترجوامنه بعد ذلك ، وليعلم أن قوله تعالي:’’ وابتغوااليه  الوسيلة ،، لا يقتضي ابتغاء واسطة، كما تفوه به صاحب الفيض ، لأن المراد بالوسيلةالقرب، والمعني: اطلبوالقرب من الله تعالي بالأ عمال الصالحة، وارجع الي تفسير الحافظ ابن كثير وغيره من كتب التفاسير.

توسل مروجہ کےجواز پربہت سےنقلی اورعقلی دلائل پیش کئے جاتے ہیں ، جن میں سےدو مشہور دلیلیں سوال میں درج کی گئیں ہیں، لیکن ان میں سےایک دلیل بھی مثبت مدعا نہیں ہے، استسقاء حضرت عمر ﷜ والی حدیث صحیح بخاری (کتاب الصلاۃ باب سؤال الناس الامام الاستسقاء اذا قحطوا 2؍ 15)میں باین الفاظ مروی ہے۔

عن أنس ، أن عمر استسقي بالعباس ، وقال : اللهم إنا كنا إذا أجد نتوسل إليك بنبينا فتسقينا ، وإنا نتوسل إليك بعم نبيك ، فاسقنا ، فيسقون،، ظاہر ہے کہ صحابہ کرام (رضی اللہ عنہ ) آں حضرت  ﷺ کی  حیات طیبہ میں آپ کی دعا اور سفارش سےتوسل کیاکرتے تھا، آں حضرت ﷺ ان کےلیے دعا فرماتے اور ساتھ ہی صحابہ بھی دعا فرماتے جیسے امام اور مقتدی دونوں دعا کرتے ہیں ، پھر جب آں حضرت ﷺ وفات پاگئے توصحابہ نےحضرت عباس ﷜ کی دعا سےتوسل کیا ، چنانچہ حضرت عباس کی دعا کےیہ الفاظ نقل کئے جاتے ہیں:’’اللهم إنه لم ينزل بلاء إلا بذنب ، ولم يكشف إلا بتوبة ، وقدتوجة القوم بي إليك ، لمكاني من نبيك ، وهذه أيدينا إليك بالذنوب ونواصنينا إليك بالتوبة، فاسقناالغيث،، ( فتح الباري   2 / 497)، پس یہ توسل ایک بزرگ زندہ شخص کی دعا اورسفارش سےہوا ، نہ مردہ شخص کی ذات سےیا اس کی نام سے۔اوراس حدیث سےثابت شدہ توسل میں اور توسل مروجہ میں آسمان وزمین کافرق ہے۔جس توسل کو ہم بدعت کہتے ہیں وہ ثابت نہیں ہوا۔اورجوثابت ہےہم اس کے منکر نہیں ، اگر توسل بالمیت جائز تھا توحضرت عمر ﷜ دیگر صحابہ کرام نےبجائے حضرت عباس ﷜ کےخود آنحضرت ﷺ سےکیوں نہیں توسل کیا؟ اورمولوی انورشاہ مرحوم فرماتے ہیں:’’ ليس فيه التوسل المعهودالذي يكون بالغائب، حتي قد لايكون به شعور أصلا، بل فيه توسل السلف ، وهو أن يقدم رجلاذا وجاهة عندالله تعالي، وبأمره أن  يدعولهم ، ثم يحيل عليه دعائه، كما فعل بعباس   رضي لله عنه عم النبي صلي الله عليه وسلم ، ولوكان فيه توسل المتأخرين ، لما احتا جوا بإذهاب عباس  رضي الله عنه معهم، ولكفي لهم التوسل بنبيهم بعد وفاته أيضا، أو لعباس  رضي الله عنه مع عدم شهودمعهم ،، انتهي( فيض الباري2/379) اور حدیث ذیل جوترمذی ،نسائی ،ابن ماجہ، ابن خزیمہ ، مستدرک حاکم (1؍ 526) وغیرہ میں مروی ہےاس سے توسل مروجہ کا ثبوت نہیں ہوتا کیوں کہ اس میں درحقیقت توسل بالدعا ہےاور وہ بھی آں حضرت ﷺ کی زندگی میں ۔نہ کہ بعد وفات ’’أتوجه أليك بنبيك محمد نبي الرحمة ، اني توجهت بك إلي ربي ،،میں بدعا ء وشفاعة نبيك سےمراد ہے، اوراس پردلیل کالفظ ’’اللهم فشفعه في،،ہےپس اس میں آنحضرت ﷺ کی دعا ووسیلہ بنانا ہےاور بلا شبہ جائز ہے۔رہ گئی طبرانی کی رویت جس سے معلوم ہوتا ہےحضرت عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ توسل بالمیت کےقائل تھے۔تووہ رویت ناقابل استدلال ہےلأن في سنده روح بن صلاح وهو ضعيف اور سوال میں نقل کردہ درود کےالفاظ کسی معتبر رویت بلکہ ضعیف سے بھی ثابت نہیں ہے، اس لیے اس سے توسل مروجہ پراستدلال کرنا غلط ہے۔اورشیخ سعدی نہ پیغمبر ہیں  نہ ان کا کلام حجت ہے۔اس لیے اس سےدلیل پکڑنا عبث اورفضول ہے۔بلکہ یہ توحنفی مذہب کےسراسر خلاف ہے۔

قال ابوالحسن القدوري في شرح كتاب الكرخي : ’’ قال بشربن الوليد: سمعت أبا يوسف يقول : قال ابو حنيفة : لاينبغي لأحد أن يدعواالله تعالي إلا به، وأكره أن يقول: اسئلك بمعاقد العز من عرشك ، وأن يقول : بحق فلان وبحق انبيائك وسلك وبحق البيت الحرام ،، انتهي، وقال نعمان خير الدين الحنفي في جلاء العينين : ’’ ونقل القدوري  وغيره من الحنفية عن ابي يوسف  أنه قال ابو حنيفة : لا ينبغي لأحد أن يدعواالله إلا به، وفي جميع متونهم : أن قول الداعي المتوسل بحق الأنبياء والأولياء وبحق البيت والمشعرالحرام مكروه كراهة تحريم، وهي كالحرام في العقوبة بالنار عند محمد ،، انتهي ملخصا.

خلاصہ جواب کا یہ ہے کہ توسل مروجہ بدعت اور بےاصل چیز ہے قال شيخنا الأجل المبارك فوري في شرح الترمذي 4/ 283:’’ الحق عندي أن التوسل بالنبي صلي الله عليه وسلم في حياته، بمعني التوسل بدعائه وشفاعتة جابر، وكذا التوسل تغيره من اهل الخير والصلاح في حياتهم ، بمعني التوسل بدعائهم وشفاعتهم أيضا جائز، وأما التوسل به صلي الله عليه وسلم بعد مماته، وكذا التوسل بغيره من أهل الخير والصلاح بعد مماتهم ،فلايجوز ،،انتهي.بعض دیوبندی علماء نے توسل مروجہ کی تجدید یا تودجیہ واصلا ح اس طرح کی ہے:

’’ ہم جس توسل کی قائل ہیں اس کی صورت یہ ہےکہ اللہ تعالی سےحاجت مانگی جائے، اوراللہ تعالی کوہی معین اور فریاد درس سمجھا جائے ، اوربزرگوں سےجواللہ تعالی کوخاص محبت اورخاص تعلق ہےاوراس کے وسیلے سےدعا کی جائے۔وسیلہ حقیقت میں اللہ کی وہ  رحمت ہےجس سےمقبول بندہ نوازاگیاہے۔پس کسی کےوسیلہ سےدعا کرنے کامطلب یہ ہے کہ اللہ تعالی کی خاص رحمت کو، جواس بندہ پرہے وسیلہ بنایاگیا ہےخود اس بندہ کوسیلہ نہیں بنایاگیا ہے۔اب تم اللہ کی رحمت ومحبت وعنائت کوجس سےخاص  بندے نوازے گئے ہیں، اپنی جاجت کےوقت وسیلہ بنا سکتے ہو، ہرحال میں اللہ توحید ملحوظ رکھو،بندہ کوفاعل اورموثر اورکام بنانے والا نہ سمجھو،،۔

( حاشیہ البنیان المشید ترجمہ البرہان الموید) 

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ شیخ الحدیث مبارکپوری

جلد نمبر 1

صفحہ نمبر 41

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ