میری ساس اور سسر ہماری خاص زندگی میں دخل اندازی کرتے رہتے ہیں اور خاص کر ساس اور نندیں (یعنی خاوند کی بہنیں )تو بہت زیادہ دخل اندازی کرتی ہیں میرا خاوند بہت ہی اچھا ہے لیکن اس کی شخصیت میں مطلقاً استقلال نہیں۔ میری آپ سے گزارش ہے کہ آپ سا س اور نندوں کے حقوق کے بارے میں بتائیں کہ مجھ پر ان کے کیا حقوق ہیں؟
میری ساس کا کہنا ہے کہ اب اس کے اور بھی زیادہ حقوق ہیں اور میرے میکے والوں کے مجھ پر کوئی حقوق نہیں رہے اور مجھ پر یہ لازم ہے کہ میں نے جہاں بھی جا نا ہو یا پھر جو بھی کام کرنا ہو اس کے لیے سا س کی اجازت ضروری ہے۔ مجھے یہ تو علم ہے کہ میں اپنے خاوند سے ہر کام کی اجازت لوں اور میں یہ کرتی بھی ہوں لیکن میرے خیال میں میری سا س کا صرف اتنا حق ہے کہ میں اسے ضرور بتاؤں کہ اپنے گھر کے معاملات کو کس طرح چلا رہی ہوں۔میری آپ سے گزارش ہے کہ آپ اس کی وضاحت فرمائیں۔آپ کی ساس اور نندوں کا آپ پر یہ حق ہے کہ آپ ان کے ساتھ اچھا برتاؤکریں ان سے صلہ رحمی اور ان کے ساتھ احسان و نیکی کی حتی الوسع کو شش کریں ۔ مگرآپ کی ساس کا جو یہ ذہن ہے کہ آپ ہر معاملے میں اس کی اجازت لیں تو یہ صحیح نہیں اور نہ ہی علمائے کرام نے اسے بیوی کے ذمہ خاوند کے حقوق میں ذکر کیا ہے بلکہ آپ پر واجب یہ ہے کہ آپ خاوند کی اطاعت کریں اور اس سے اجازت طلب کریں اور اس کی بھی اطاعت اس وقت تک ہے جب تک وہ برائی کا حکم نہ دےا گر وہ برائی کا حکم دے تو اس میں اس کی اطاعت نہیں ہو گی۔
لیکن یہاں یہ بات نہ بھولیں کہ آپ کو اپنی سا س کےتجربات اور اس کی پندونصائح سے فائدہ اٹھا نے میں کوئی ممانعت نہیں اور نہ ہی اس میں کوئی حرج ہے اسی طرح اس میں بھی کوئی حرج نہیں کہ آپ اپنی ساس کی تھوڑ ی بہت تنگی کو برداشت کریں تاکہ اس سے آپ کے خاوند کی عزت ہو سکے اور ایسا کرنا آپ کے لیے باعث اجرو ثواب بنے۔
اور آپ کی ساس کا یہ کہنا کہ اب آپ کے میکے والوں کا آپ پر کسی قسم کا کوئی حق نہیں رہا صحیح نہیں بلکہ ان کے ساتھ صلہ رحمی احسان اور نیکی کرنے کا حق ابھی بھی باقی ہے اسی طرح وقتاً فوقتاًانہیں ملنے جانا بھی ان کا حق ہےاور خاص کروالدین کے ساتھ ملاقات اور احسان تو ضروری ہے ہم اللہ تعالیٰ سے دعاگو ہیں کہ وہ آپ کے دلوں میں الفت پیدا فرمائے اور آپ کو ہدایت سے نوازے ۔ (واللہ اعلم)(شیخ محمد المنجد)