السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
دریائے نیل میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کےلکھے ہوئے پرزہ یا بطاقہ ڈالنے کاواقعہ
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
دریائے نیل میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کےلکھے ہوئے پرزہ یا بطاقہ ڈالنے کاواقعہ خطط المقریزی 1؍58 اور النجوم الزھرۃ 1؍ 35اورتاریخ الخلفاء ص : 49 میں بھی بحوالہ کتاب العظمۃ لابی الشخ مذکور ہے۔اس کےسند میں مجہول اور ضعیف رواۃ موجود ہیں اس بنا پریہ روایت قطعا ً نا قابل اعتبارہے۔
اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کےمنبر پرخطبہ جمعہ کی حالت میں ’’ یا سارية الجبل ،، والا واقعہ تہذیب الاسماء واللغات للنووی 2 ؍ 10 اور اسد الغایۃ 4؍ 25 اورتاریخ الخلفاء ص : 49 میں بحوالہ بیہقی ، ابو نعیم فی دلائل النبوة ، واللا لکائی فی شرح السنة ، والدیرعا قولی فی فوائده، وابن الا عرابی کرامات الاولیاء، والخطیب فی رواة مالک وابن مردویہ ، سند ا مذکور ہے۔نیز حافظ نے اصابہ میں اس قصہ کومختصرا لکھنے کےبعد کہا ہےکہ ’’ اسنادہ حسن ،، اس لیے اس واقعہ کوناقابل اعتبار بتانا صحیح نہیں معلوم ہوتا ۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کےکسی شخص کوپرزہ پر’’ بسم اللہ الرحمن الرحیم،، لکھ کرٹوپی میں لگانے کاحکم یامشورہ دینے کاواقعہ نظر سےنہیں گذرا وللہ اعلم بحال سندہ ۔
محمدبن اسحق اور عمروبن شعیب عن ابیہ عن جدہ کےبارے میں آپ کوجوکچھ لکھا جاچکا ہےاس سے زیادہ اب کچھ لکھنے کی ضرورت نہیں ہے۔مصنف رسالہ کی طرف سےان دونو ں پرنیز خارجہ بن الصلب پرذکر کی گئی جرحوں اور فیصلہ کودیکھ کرباربار افسوس ہوتا ہے۔اب اس سلسلہ میں عاجز کوکچھ نہ لکھا جائے۔
آیت: ﴿الَّذينَ يَأكُلونَ الرِّبوٰا۟ لا يَقومونَ إِلّا كَما يَقومُ الَّذى يَتَخَبَّطُهُ الشَّيطـٰنُ مِنَ المَسِّ ...﴿٢٧٥﴾...البقرة سے میں نےجنوں کےکسی پرسوار ہونے اورتکلیف پہنچانے کوثابت کرنے کی کوشش نہیں کی ہے۔بلکہ جولوگ اس کےقائل ہیں ان کےمستدل کو ذکر کردیا ہے، ساتھ ہی یہ لکھ دیا ہےکہ جولوگ اس کےقائل نہیں ہیں( معتزلہ نیچرلہ وغیرہ) وہ اس کی جوتاویل وتوجیہ کرتے ہیں،غالبا مصنف رسالہ بھی وہی سب کچھ کرتے ہوں گے ۔مفسرین نے اس بارے میں جو کچھ لکھا ہے وہ ساری چیزیں میرے سامنے تھیں ، مفسرین کی توجیہات وتاویلات پرجس کو اطمینان ہو اس کواختیار ہے جوچاہے اپنا مسلک اورعقیدہ بنائے۔
حضرت الوسعید خدری رضی اللہ عنہ کی حدیث میں مذکور واقعہ اور حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث میں مذکور واقعہ ۔ان دونوں میں ایک شخص جوسلیم ولدیغ تھا اور ایک ہی جماعت صحابہ اور لدیغ پررقیہ( دم ) کرنے والے صحابی کاذکر ہے اور یہ دو قصے نہیں ہیں ۔البتہ حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ’’ ان احق ما اخذ تم عليه اجرا کتاب الله،، کا جملہ نہیں اور حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت میں موجود ہے۔حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کی روایت میں اس جملہ کےمذکور نہ ہونے کانفس واقعہ اوراس جملہ کے محفوظ ہونے پر کوئی اثر نہیں پڑتا ۔ البتہ خارجہ بن الصلت عن عمہ کی حدیث میں دوسرا واقعہ مذکور ہے جس میں بصراحت یہ موجود ہےکہ جس پر دم کیا گیا تھا وہ مجنون اور مخبول العقل تھا۔
تعلیم قرآن پراجرت لینے کے، کہ اس کے جواز میں کسی کا اختلاف نہیں ہے۔ دونوں کوایک دوسرے کے ساتھ خلط ملط کرنا غلط بات ہے۔اجرت علی الرقیہ کےعدم جواز یا منع پر کوئی روایت موجود نہیں ہے۔بلکہ ا س کی مثبت تین صریح صحیح اورمعتبر احادیث موجود ہیں۔ان کےہوتے ہوئے اس کے جواز کاانکا رکرنا اور ان کی دوراز کارتاویلیں کرنا ، بڑی جرا ت اوربعید از انصاف بات ہے۔اسی لیے میں اس کا قائل ہوں ، کہ اگر کوئی بوقت ضرورت یا بلا ضرورت اتفاقی طو ر پر جائز رقیہ کی شرط کرکے اجرت لےلے توجائز ہے، البتہ اس کۃ کسب معاش کاذریعہ بنانا اوراس کاکاروبار اور بیوپار کرنا ٹھیک نہیں ہے۔
رہ گیا تعلیم قرآن پر اجرت لینا اگرچہ ’’ ان احق ما اخد تم علیہ اجرا،،الخ کہ عموم واطلاق سے اس کا جواز ثابت ہوتا ہے، اوراس کی ناسخ یا اس کےدرجہ کی کوئی معارض حدیث موجود نہیں ، بلکہ سب کی سب اس سے بہت کم درجہ کی ہیں جنہیں آپ نے اپنے خط میں نقل بھی کردیا ہے۔ان کی بنا پر خو د یہ حقیر وناکارہ تعلیم قرآن پر یا تراویح میں قرآن سنانے پرشرط کرکے یا بغیر شرط کےاجرت اور معاوضہ لینے کوسخت ناپسند کرتا ہے۔البتہ اگر معلم قرآن کےذمہ دوسرے فن کی تعلیم کاکام بھی ہوتو یہ کراہت بہت ہلکی یا ختم ہوسکتی ہے۔
عبیداللہ رحمانی مبارکپوری 13؍5ں1979ء ( مکاتیب شیخ رحمانی بنام مولانا امین اثری ص: 112؍113؍114)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب