مسلمان کے سامنے جب بھی کوئی شرعی حکم آجائے تو اس پر واجب ہے کہ اسے تسلیم کرے اور اس پرایمان لائے خواہ اس کی حکمت اس کے علم میں ہویا نہ ہو کیونکہ اللہ تعالیٰ کا یہی حکم ہے فرمایا:
"اور کسی بھی مومن مرد اور عورت کو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے کے بعد کسی امر کا کوئی اختیار باقی نہیں رہتا (یاد رکھو!) جو بھی اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کرے گا۔وہ صریح گمراہی میں پڑے گا۔"
اور جب مردو عورت ازدواجی زندگی کے قالب میں جمع ہوتے ہیں اور اکٹھے زندگی گزارتے ہیں تو ان کی رائے میں اختلاف پا یا جا نا کوئی دورکی بات نہیں لہٰذا ضروری ہے کہ کوئی ایسا فریق ہو جو اس نزاع کا فیصلہ کرے اور اختلاف کا خاتمہ کرے اور اس کی بات قابل تسلیم ہو۔ اس لیے شریعت اسلامیہ نے گھر میں بیوی پر خاوند کو حاکم بنایاہے۔کیونکہ وہ غالباً عقل میں کامل ہوتا ہے تو اس کا معنی یہ ہوا کہ عورت پر خاوند کی اطا عت کرنی واجب ہے۔ اللہ تعالیٰ کافرمان ہے۔
"مردعورتوں پر حاکم ہیں اس وجہ سے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک کو دوسرے پر فضیلت دی ہے اور اس وجہ سے کہ مردوں نے اپنے مال خرچ کیے ہیں۔"( النساء :34)
اس اطاعت کے لزوم کے کئی ایک اسباب ہیں جن میں سے چند ایک یہ ہیں۔
1۔مردوں میں اس مسئولیت کو نبھانے کی زیادہ قدرت و قوت پائی جاتی ہے۔
2۔دین اسلام میں مرد عورت کے تمام اخراجات کا مکلف ہے۔اس معاملہ میں چند ایک اشیاء کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے مثلاً:
1۔عورت کو خاوند کی اطاعت میں اللہ تعالیٰ سے اجر حاصل ہو گا۔
2۔خاوند کی اطاعت کسی نافرمانی کے کام میں نہیں ہو گی۔
3۔جس طرح خاوند کا بیوی پر حق ہے اسی طرح خاوند کو بھی بیوی کے ساتھ اچھے برتاؤ کا حکم ہے۔لہٰذا خاوند اپنی بیوی سے خدمت لینے میں اس پر ظلم و زیادتی نہیں کرے گا اور نہ ہی اس پر سخت اور بد اخلاقی کے احکام چلائے گا بلکہ وہ اس کے معاملات میں حکمت ودانشمندی سے کام لے اور اسےایسا کام کرنے کا کہے جس میں اس کی اور اہل و عیال کی بھلائی ہو۔ اللہ تعالیٰ ہی توفیق بخشنے والا ہے۔(شیخ محمد المنجد)