سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(275) گھر کو بھول کر شوہر کی دیور کے کاموں میں بکثرت مشغولیت

  • 15814
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 787

سوال

(275) گھر کو بھول کر شوہر کی دیور کے کاموں میں بکثرت مشغولیت
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میرے خاوند کا بھائی ہر وقت ہمارے گھر  میں ہی رہتاہے یا پھر خاوند سے ٹیلی فون پر بات چیت کرتا رہتا ہے یا اسے اپنے ساتھ گھر سے باہر لے جاتاہے۔میرے خاوند کے بغیر وہ کچھ بھی نہیں کرسکتا اور یہ معاملہ یہاں تک پہنچ چکا  ہے کہ میں اب اسے دیکھنا بھی گوارا نہیں کرتی اور مجھے محسوس ہوتا ہے کہ وہ میرے خاوند کو میری اور اولاد کی ذمہ داری سے دور ہٹا رہا ہے ۔ہم اپنی اولاد کے ساتھ اچھی بھلی زندگی بسر کررہے ہیں اور میں یہ چاہتی ہوں کہ اپنی اولاد کے لیے جو چاہوں کروں لیکن اس کے ساتھ ساتھ میں یہ بھی چاہتی ہوں کہ میرا خاوند میرے ساتھ ہو لیکن اس کا بھائی اسے ہمارے لیے فرصت ہی نہیں دیتا اورجب ہم کہیں جائیں تو وہ ٹیلی فون پر اسے تلاش کرلیتا ہے۔اس وجہ سے میرے اور خاوند کے درمیان جھگڑا بھی ہوچکا ہے۔اس کے خیال میں میرے لیے کسی بھی کام میں نہ کرناآسان ہے کیونکہ میں اسے معاف کردیتی ہوں اور کچھ نہیں کہتی لیکن وہ اپنے بھائی کے سامنے انکار نہیں کرسکتا کیونکہ اس کی بناء پر وہ اس سے ایک طویل عرصہ تک ناراض ہوجائے گا۔

خاوند کے لیے واجب تو یہ ہے کہ اگر وہ یہ چاہتاہے کہ ہماری ازدواجی زندگی اچھی رہے تو وہ ہمارے ساتھ زیادہ تعلقات  رکھنے نہ کہ اپنے بھائی کے ساتھ۔ایک مسلمان عورت ہونے کے ناطے کیا میں اس سے اپنے حقوق سے بھی زیادہ کا مطالبہ کررہی ہوں؟یا کہ اسے اپنے بھائی کی سوچ ہم سے بھی پہلے آنی چاہیے؟

الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

پہلی بات تو یہ ہے کہ شوہر کو یہ علم ہونا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے اس پراس کی اولاد کی تعلیم وتربیت اور ان کی ضروریات کا خیال رکھنا واجب کیا ہےی اور اس پر یہ بھی واجب کیا ہے کہ وہ اپنی بیوی کے ساتھ حسن معاشرت اختیار کرتا ہو اس کے ساتھ اچھے اچھے طریقے سے بودوباش رکھے ان سب مسائل میں کسی بھی قسم کی کمی وکوتاہی پر اللہ تعالیٰ روز قیامت اس سے باز پرس کرے گا۔اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا قوا أَنفُسَكُم وَأَهليكُم نارً‌ا وَقودُهَا النّاسُ وَالحِجارَ‌ةُ عَلَيها مَلـٰئِكَةٌ غِلاظٌ شِدادٌ لا يَعصونَ اللَّهَ ما أَمَرَ‌هُم... ﴿٦﴾... سورة التحريم

"اے ایمان والو!اپنے آپ اور اپنے اہل وعیال کو جہنم کی آگ سے بچاؤ جس کاایندھن لوگ اور پتھر ہیں،اس پر سخت قسم کے فرشتے مقرر ہیں جو اللہ تعالیٰ کے کسی بھی حکم کی نافرمانی نہیں کرتے اور وہی کرتے ہیں جس کا انہیں حکم دیا جائے۔"

اور ایک دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے کہ:

اور ان عورتوں کے ساتھ اچھے انداز میں بودوباش اختیار کرو۔" النساء:19

دوسری بات یہ ہے کہ خاوند پر ضروری ہے کہ وہ ایسی کسی بھی چیز کو اپنی زندگی میں داخل نہ ہونے دے جو اس کے اور اس کے اہل وعیال کی ضروریات میں دخل انداز ثابت ہو مثلاً کوئی ایسا مسلسل عمل یا کوئی ایسی دوستی جو اس کا وقت ضائع کرے یا پھر کوئی قریبی رشتہ دار جو اس کا وقت لے اور اس  کے گھریلو معاملات میں بھی دخل اندازی کرے۔مسلمان اس دور میں تو اتنا وقت بھی نہیں نکال سکتا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے واجب کردہ اعمال کو ہی بجا لائے تو پھر اس پر یہ کس طرح آسان ہوسکتا ہے کہ وہ اپنے اس وقت کو کسی دوسرے کے ساتھ بلا حساب ہی ضائع کرتا پھرے۔

تیسری بات یہ ہے کہ بیوی کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے خاوند اور اس کے گھر والوں میں  تفریق نہ ڈالے اور یہ بھی اس کے لائق نہیں کہ وہ ان کے بار بار آنے یا پھر خاوند سے ملنے کے لیے آنے پر جھگڑا کھڑا کردے ،لیکن اگر یہ عمل خاوند کے واجبات پر اثر انداز ہوتو پھر ایسا ہوسکتا ہے اور والد کو بھی چاہیے کہ وہ ا پنی اولاد پر کسی کو بھی ترجیح نہ  دے نہ تو اپنے بھائی کو اور نہ ہی کسی او قریبی کو۔

چوتھی بات یہ ہے کہ ہم اپنی بہن کو نصیحت کرتے ہیں کہ وہ اپنے خاوند کے ساتھ نرم  رویہ رکھے اور بھائی کے ساتھ  تعلقات کے معاملے میں اس کے سامنے جھگڑا نہ کرے اور اپنی اولادکے ذہنوں میں بھی اسکے بارے میں بغض اور ناپسندیدگی پیدا نہ کرے اور جب خاوند میں کوئی نقص د یکھے کہ وہ شرعی واجبات میں کوتاہی سے کام ل رہا ہے تو اسے احسن انداز میں سمجھائے اور اس میں کسی بھی قسم کی شدت نہیں ہونی چاہیے اور اگر ضرورت  پیش آئے تو اس میں بھی اشاروں کنایوں کے ساتھ ہی بات کرے ناکہ صراحت کے ساتھ۔ہماسرے خیال میں ایسے حالات میں اکثر ایسا ہی ہوتا ہے کہ جب خاوند اپنی بیوی کو اپنے دیگر گھر والوں کے ساتھ اچھے تعلقات میں دیکھتا ہے تواپنی بیوی سے بھی احسن انداز میں پیش آتا ہے۔(واللہ اعلم) (شیخ محمد المنجد)
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ نکاح و طلاق

ص347

محدث فتویٰ

تبصرے