مجھے ایک مشکل درپیش ہے اور میں جاننا چاہتی ہوں کہ میں اس میں خاوند کی اطاعت کروں یا نہ کروں؟
میں ایک مسلمان عورت ہوں اور ملازمت کرتی ہوں اورتقریباً دو ہفتوں سے بیمار ہوں۔علاج کے لیے میں ڈاکٹر کے پاس گئی تو اس نے دوائی اور کام سے چھٹی کے لیے مجھے ایک لیٹر لکھ دیا تاکہ میں آرام کرسکوں۔خاوند مجھ سے مطالبہ کرتا ہے کہ میں ڈیوٹی پر جاؤں حالانکہ میں ابھی تک بیمار ہوں۔ وہ میرے لیے مشکل پیدا کرتا ہے اور جب بھی میں بیمار ہوجاؤں مجھے اسی مشکل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔میرا خاوند کہتا ہے کہ میں بیماری کا بہانہ کرکے ڈرامہ کرتی ہوں اور اس کا خیال ہے کہ میں ملازمت نہیں کرنا چاہتی حالانکہ میں اپنی ملازمت سے محبت کرتی ہوں اور ڈرامہ وغیرہ نہیں کرتی۔تو میں اپنے خاوند کو کس طرح اطمینان دلا سکتی ہوں کہ میں بیمار ہوں اور ڈرامہ نہیں کررہی کیونکہ وہ میری بات تسلیم نہیں کرتا؟سب سے پہلے تو ہم اس بات سے خبردار کرنا چاہتے ہوں کہ بعض اوقات عورت کی ملازمت حرام بھی ہوتی ہے مثلاً جب اس کی ملازمت میں غیر مردوں سے اختلاط اور میل جول وغیرہ ہویا ایسی چیز فروخت کی جائے جوحرام ہویا پھر بینکاری وغیرہ کے نظام میں تو ایسی ملازمت حرام ہے۔لہذااگر مذکورہ عورت کی ملازمت اسی طرح کی ہے جیسا کہ ہم نے اوپر ذکر کیا ہے تو عورت کو چاہیے کہ وہ اس جیسے کام سے رک جائے اور اس کے علاوہ کوئی اورجائز ملازمت تلاش کرے اور خاوند پر بھی ضروری ہے کہ وہ اپنی بیوی پراحسن انداز میں حسب استطاعت خرچ کرے۔
دوسری بات یہ ہے کہ اگر عورت کی ملازمت کسی جائز کام میں ہے اور وہ بیماری میں مبتلا ہوجائے جس بناء پر اس کا ڈیوٹی پر جانا مشکل ہویا پھر اس کی بیماری لمبی ہوجائے اور جلد شفایابی نہ ہویا پھر مرض شدت اختیار کرجائے تو خاوند کو اس کاخیال رکھنا چاہیے اور اسے تنگ نہیں کرنا چاہیے اور خاوند کے لیے حلال نہیں کہ وہ اپنی بیوی سے ایسا مطالبہ کرے جس میں بیوی کو کسی قسم کا نقصان ہو۔اور خاوند پر واجب ہے کہ وہ اپنی بیوی سے حسن معاشرت کرتے ہوئے اچھے طریقے سے زندگی بسر کرے۔اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
"اور ان عورتوں کے ساتھ احسن انداز میں معاشرت اختیار کرو۔"(النساء:19)
اور یہ کوئی اچھا طریقہ نہیں کہ بیوی سے اس کی بیماری کے دوران ڈیوٹی پر جانے کا مطالبہ کیاجائے۔حالانکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تواپنی امت کی عورتوں کے بارے میں مردوں کو یہ وصیت فرماتے ہوئے کہا ہے کہ:
"عورتوں سے اچھائی اور بھلائی کرو اور میری نصیحت ان کے بارے میں قبول کرو۔"( بخاری(5185) کتاب النکاح باب الوصاۃ بالنساء مسلم(1468) کتاب الرضاع باب الوصیۃ بالنساء ترمذی(1188) کتاب الطلاق واللعان باب ما جاء فی مداواۃ النساء احمد(2/449) ابن حبان(4179) شرح السنۃ للبغوی(2332) دارمی(2222)
اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ ان عورتوں کے متعلق میر ی وصیت قبول کرو اور ان کے ساتھ نرمی ،اچھا برتاؤ اور حسن معاشرت کرو۔اور خاوند کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ بیوی کی سچائی میں شک نہ کرتا رہے بلکہ اس کی اپنی بیوی کے ساتھ تو زندگی سچائی پر ہی قائم ہونی چاہیے نہ کہ شک وشبہ کی بنیاد پر۔اور جب خاوند کو میڈیکل رپورٹ اور بیماری کے آثار بھی یہ یقین نہ دلا سکیں کہ اس کی بیوی بیمار ہے تو پھر ایسی کون سی چیز ہے جواسے بیماری کا یقین دلائے گی؟لہذا بیوی کو چاہیے کہ وہ اس سے اپنے رویے کو نرم رکھے اور اس کے ساتھ اچھے طریقے سے معاملات کرے ممکن ہے اللہ تعالیٰ اس کے خاوند کو وہ راہ دکھا دے جس میں اس کے خاندان اور اہل وعیال کی بھلائی ہو۔(واللہ اعلم)(شیخ محمد المنجد)