مسلمان بہن کے علم میں ہونا چاہیے کہ جو شخص مکمل نمازوں کی ادائیگی نہیں کرتا اور اسی پر قائم رہتاہے ایسا شخص صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور اکثر اہل علم کے ہاں کافر شمار ہوتاہے۔اس سے نکاح کرنا اور اس کا ذبیحہ کھانا بھی جائز نہیں۔اس طرح جب خاوند مطلقاً نے نماز ہو تو وہ بہت بڑے خطرے میں ہے اور اس کے ساتھ نکاح میں رہنا بھی درست نہیں۔اسے اس سے ڈرانا ضروری ہے اور درست یہی ہے کہ اس سے ہم بستری بھی نہ کی جائے حتیٰ کہ وہ نماز کی ادائیگی شروع کردے کیونکہ بے نماز کافر شمار ہوتا ہے جیسا کہ فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے:
"کفر وشرک اور(مسلمان ) بندے کے درمیان فرق نماز کا چھوڑ دیناہے۔"( مسلم (82)کتاب الایمان :باب بیان اطلاق اسم الکفر علی من ترک الصلاۃ احمد(3/37) دارمی (1/280) ابوداود(4678) کتاب الصلاۃ باب فی رد الارجاء ترمذی(2618) ابن ماجہ(1078) الحلیۃ لابن نعیم(8/256) بیہقی(3/366)
ایک دوسرے مقام پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ:
"بندے اور کفر ایمان کے درمیان(فرق کرنے والی) نماز ہےپس جب اس نے اسے ترک کردیا تو اس نے شرک کیا۔"( صحیح :شرح اصول اعتقاد اھل السنہ والجماعۃ للالکائی(4/822) اس کی سند صحیح مسلم کی شرط پر صحیح ہے نیز امام منذری رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اسے صحیح کہا ہے۔(الترغیب والترھیب(1/379)
حضرت عبداللہ بن شقیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ نماز کے علاوہ کسی بھی عمل کے ترک کرنے کوکفر شمار نہیں کرتے تھے۔
اس لیے واجب ہے کہ خاوند کو اس کے اس فعل سے ڈرایا جائے۔اگر وہ پھر بھی اس پر اصرار کرتا ہے تو پھر خاوند کے ساتھ نکاح میں رہناجائز نہیں اس لیے کہ آ پ دین اسلام پر ہیں اور وہ دین اسلام پر نہیں۔اللہ سبحانہ وتعالیٰ مسلمانون کو اللہ تعالیٰ کے احکام کی بجاآوری اور ا پنی اطاعت کی توفیق دے۔آپ کو چاہیے کہ اپنے خاوند کو نصیحت کرتی رہیں اور اسے اللہ کا خوف دلائیں ہوسکتا ہے اللہ تعالیٰ اسی میں خیروبھلائی پیدا کردے۔(واللہ اعلم)(شیخ محمد المنجد)