ایک بیوی کی موجودگی اور اس کی آنکھوں کے سامنے دوسری بیوی سے ہم بستری کی حرمت میں کسی قسم کا اختلاف نہیں۔
1۔حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں۔
وہ (یعنی صحابہ یا تابعین رضوان اللہ عنھم اجمعین )سب اسے مکروہ سمجھتے تھے کہ ایک بیوی سے ہم بستری کی جائے اور دوسری اس کی سرسراہٹ یا آواز سنے یاد رہے کہ متقدمین علمائےکرام کے ہاں کراہت تحریم کے معنی میں ہو تی ہے۔( ابن ابی شیہ 388/4)
2۔امام ابن قدامہ رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں۔
اگر دونوں بیویاں ایک ہی گھر میں رہنے پر راضی ہو جائیں تو یہ جائز ہے اس لیے کہ یہ ان کا حق تھا اور اس کو معاف کرنے کا بھی انہیں اختیار ہے۔اسی طرح اگر وہ دونوں اپنے خاوند کے ساتھ ایک ہی لحاف میں سونے پرراضی ہو جائیں تو پھر بھی یہ جائز ہے۔
لیکن اگر وہ اس پر راضی ہوتی ہیں کہ ایک سے دوسری کے سامنے ہم بستری کی جائے اور وہ اسے دیکھتی رہے تو یہ جائز نہیں اس لیے کہ اس میں مردئت کارخاتمہ اور کمینگی ہے۔لہٰذا ان دونوں کی رضامندی سے بھی یہ چیز مباح نہیں ہو گی۔( المغنی لابن قدامۃ 137/8)
3۔شیخ ابن عثیمین رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں ۔
اس کام کو صرف مکروہ خیال کرنا بہت ہی عجیب و غریب بات ہے بلکہ اس کے تحت دو چیزیں ہیں۔
ایک تویہ کہ اس سے دونوں کی شرمگا ہیں دیکھی جائیں گی اور اس میں کوئی شک نہیں کہ یہاں پر کراہت پر ہی انحصار کرنا غلط ہے کیونکہ ستر چھپانا واجب ہے لہٰذاایسی صورت قطعاًحرام ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ ان دونوں کی شرمگاہوں کو نہ دیکھا جارہا ہو۔ تو اس میں بھی صرف کراہت کہنا درست نہیں بلکہ یہ بات بھی قابل غور ہے کہ بالفرض اگروہ دونوں ایک ہی لحاف میں ہیں اور مرد ایک سے مجامعت کر رہا ہے تو لازماً اس کی حرکات دیکھی جائیں گی لہٰذا اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ یہ بھی حرمت کے ہی زیادہ قریب ہے۔
پس اس مسئلہ میں صحیح مؤقف یہ ہے کہ:
بیوی سے کسی کے سامنے ہم بستری کرنا حرام ہے ہاں یہ ہوسکتا ہے کہ جب دیکھنے والاکوئی بچہ ہو جو ایسی چیزوں کا علم اور شعور نہیں رکھتا تو اس میں کوئی حرج نہیں ۔لیکن اگر وہ بچہ جو کچھ کیا جارہا ہے اس کاتصور کر سکتا اور اس کی نقل اتارسکتا ہوتو پھر اس کے سامنے بھی ہم بستری کرنا صحیح نہیں اگر چہ وہ بچہ ہی ہے اس لیے کہ ممکن ہے کہ بلا قصد وارادہ جو کچھ اس نے دیکھا ہے آگے بیان کرنا شروع کردے۔(شیخ محمد المنجد)