السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
آیا حضورﷺسے تہجد کی اذان ثابت ہے اگر ثابت ہے تو اس کی دلیل دیں جو آپﷺ کے وقت میں ایک حضرت بلال رضی اللہ عنہ اور دوسری حضرت ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ کی اذانوں کا ذکر ملتا ہے ان میں جو حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے اذان دی ہے آیا وہ تہجد کی اذان ہے یا سحری کھانے کی ہے اگر وہ تہجد کی اذان نہیں تو جو اذان میں حی علی الصلوۃ کے لفظ ہیں ان کا کیا مطلب ہے اگر اس کی تفسیر فَکُلُوْا وَاشْرَبُوْا سے کریں وہ رمضان المبارک کے لیے خاص ہے یا رمضان کے علاوہ بھی دے سکتا ہے۔
اگر پہلی اذ ان کو تہجد کی اذان تسلیم کر لیں پھر وہ بدعت ہو گی یا عین شریعت کے مطابق صحیح اور درست ہو گی ۔ لہٰذا وضاحت فرمائیں؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
آپ اپنے مکتوب گرامی میں سوال کرتے ہوئے لکھتے ہیں آیا حضورﷺ سے تہجد کی اذان ثابت ہے ؟ اگر ثابت ہے تو اس کی دلیل الخ
صحیحین میں حضرت عبداللہ بن عمر ، حضرت عبداللہ بن مسعود اور ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ نیز صحیح مسلم میں حضرت سمرہ بن جندب چار صحابہ رضی اللہ عنہما کی احادیث مرفوعہ صحیحہ کے ساتھ صبح صادق فجر سے پہلے اذان رسول اللہ ﷺ کے قول اور آپ کی تقریر سے ثابت ہے۔(صحیح بخاری جلد اول ۔ باب الاذان قبل الفجر ص ۸۷ صحیح مسلم جلد اول ص ۳۵۰) ان احادیث سے صرف ایک نیچے درج کی جا رہی ہے باقی آپ خود اصل کتابوں سے ملاحظہ فرما لیں اس مضمون کی احادیث سنن نسائی ، سنن ابی داود ، سنن ترمذی، سنن ابن ماجہ اور دیگر کتب حدیث میں بھی موجود ہیں ۔
«قَالَ الْبُخَارِيُّ : حَدَّثَنَا عَبْدُ اﷲِ بْنُ مَسْلَمَۃَ عَنْ مَالِکٍ عَنِ ابْنِ شِہَابٍ عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اﷲِ عَنْ اَبِیْہِ اَنَّ رَسُوْلُ اﷲِ ﷺ قَالَ : اِنَّ بِلاَلاً یُؤَذِّنُ بِلَیْلٍ فَکُلُوْا وَاشْرَبُوْا حَتّٰی یُنَادِیَ ابْنُ اُمِّ مَکْتُوْمٍ ۔ قَالَ : وَکَانَ رَجُلاً اَعْمٰی لاَ یُنَادِیْ حَتّٰی یُقَالَ لَہٗ : اَصْبَحْتَ اَصْبَحْتَ»(صحیح البخاری ۔ المجلد الاول ۔ باب اذان الاعمی اذا کان لہ من یخبرہ ۔ ص ۸۶)
’’حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ بے شک رسول اللہﷺ نے فرمایا : کہ بے شک رات کو بلال اذان دیتے ہیں کہ پس تم کھائو اور پیو یہاں تک کہ عبداللہ بن ام مکتوم رضی اللہ عنہ اذان دیں وہ فرماتے ہیں کہ وہ اتنی دیر تک اذان نہ کہتے تھے جب تک کہ یہ نہیں کہا جاتا تھا کہ تو نے صبح کی ہے تو نے صبح کی ہے‘‘
نبی کریم ﷺ کا یہ قول مبارک اس بات میں نص صریح ہے کہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ صبح صادق سے قبل رات کو اذان کہا کرتے تھے اس اذان بلال کے بعد ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ کی اذان تک کھانا پینا درست۔ پھر اس حدیث مبارک سے ان دونوں اذانوں کے درمیان وقفہ کا بھی ثبوت ملا جو ایک کے اترنے اور دوسرے کے چڑھنے میں ہی محدود نہیں تھا ورنہ لوگوں کے حضرت ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ کو ’’اَصْبَحْتَ اَصْبَحْتَ‘‘ کہنے کا کوئی معنی نہیں بنتا کیونکہ حضرت ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ نابینے تھے بہرے تو نہیں تھے انہی روایات میں چڑھنے اترنے کا تذکرہ ہے ان میں وقفہ کی قلت کو بیان کرنا مقصود ہے تحدید وتعیین مراد نہیں ورنہ اذانوں کا تعدد بے فائدہ ہو کر رہ جاتا ہے تاہم جو اہل علم ازروئے تحقیق وتدقیق دیانۃً یہی سمجھتے ہوں کہ واقعی اترنے چڑھنے سے زیادہ وقفہ نہیں تھا وہ اسی پر عمل کر لیں اس سے کوئی پہلی اذان کی نفی تو نہیں ہوتی بلکہ اس سے تو اس کے ثبوت کی تصدیق وتائید ہی ہوتی ہے البتہ ایسے لوگوں کو یہ بات ملحوظ خاطر رکھنا چاہیے کہ یہ لوگ اذان فجر اور جماعت فجر کا درمیانی وقفہ اتنا ہی رکھتے ہیں جتنا رسول کریمﷺ کے وقت میں تھا؟ اگر یہ وقفہ زیادہ کر لیا گیا ہے تو پھر اذان فجر اور اذان قبل از فجر کے درمیانی وقفہ میں چند منٹ کے اضافہ پر اعتراض کیوں ؟ مقصد یہ نہیں کہ اذان فجر اور جماعت فجر میں وقفہ زیادہ رکھنا کوئی سنت ہے غرض صرف یہ ہے ایسے وقفوں میں چند منٹوں کی کمی بیشی میں کوئی مضائقہ نہیں ۔
رہا پہلی اذان کا نام ’’اذانِ تہجد‘‘ تو وہ کسی حدیث میں وارد نہیں ہوا یہ نام لوگوں نے از خود تجویز کر لیا ہے جیسا کہ لفظ ’’صلاۃ تراویح‘‘ از خود بنا لیا گیا ہے کتاب وسنت سے یہ نام ثابت نہیں البتہ یہ کام (قیام رمضان ، صلاۃ رمضان ، قیام اللیل ، صلاۃ اللیل اور صلاۃ الوتر) فجر سے پہلے والی اذان کی طرح رسول اللہﷺ سے احادیث کثیرہ کے ساتھ ثابت ہے باقی اس اذان کے ایک جملہ ’’حی علی الصلاۃ‘‘ میں لفظ صلاۃ سے اس کے اذان تہجد ہونے پر استدلال درست نہیں کیونکہ یہ لفظ صلاۃ کوئی نماز تہجد ہی کے ساتھ مخصوص نہیں اس میں تو نماز فجر بھی شامل ہے یا صرف نمازِ فجر ہی مراد ہے یا تمام نمازیں مراد ہیں ۔
بعض اہل علم کہتے ہیں کہ یہ اذان صرف رمضان کے ساتھ خاص ہے مگر ان کے پاس اس کی کوئی دلیل نہیں ’’فَکُلُوْا وَاشْرَبُوْا‘‘ اور ’’ لاَ یَمْْنَعَنَّ اَحَدَکُمْ اَذَانُ بِلاَلٍ مِنْ سُحُوْرِہٖ‘‘ کو اس کی دلیل نہیں بنایا جا سکتا کیونکہ سحری اور اکل وشرب رمضان کے علاوہ دوسرے مہینوں میں بھی ہوتے ہیں نبی کریم ﷺ اور صحابہرضی اللہ عنہما غیر رمضان میں بھی روزے کثرت سے رکھا کرتے تھے پھر تعجب ہے کہ اس نظریہ کے حامل بعض حضرات رمضان میں بھی اس اذان سے کڑتے ہیں۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب