اس میں اصل تو جواز ہی ہے کیونکہ اس کی ممانعت میں کتاب وسنت اور اجماع میں کوئی دلیل نہیں ملتی اور نہ کسی کا یہ قول ہے۔اسی طرح اس کے متعلق قیاس صحیح میں بھی کوئی دلیل نہیں اور نہ ہی مجھے یہ علم ہے کہ ایسا کرنا کسی نے حرام قرار دیا ہو یا اسے ناپسند ہی کیا ہو۔صرف اتنا ہی کہ بعض فقہاء نے حیض کی حالت میں لڑکی کی رخصتی مکروہ قراردی ہے کہ کہیں خاوند اس سے ہم بستری کرکے گناہگار نہ ہوجائے۔
بعض عوام الناس میں اس کا حکم اس لیے خلط ملط ہوتا ہے کہ اسے حیض کی حالت میں طلاق کے ساتھ جوڑ دیتے ہیں حالانکہ ان دونوں کے درمیان کوئی توافق نہیں۔بہرحال حائضہ عورت سے عقد نکاح بالاتفاق جائز ہے۔اور بالا تفاق مدخولہ عورت کو حیض کی حالت میں اطلاق دینا حرام ہے۔(شیخ عبدالکریم)
شیخ ابن عثمین رحمۃ اللہ علیہ سے دوران حیض عورت کے نکاح کے متعلق دریافت کیا گیا تو ان کا جواب تھا:
بلاشبہ ایسی عورت کا عقد نکاح جو حالت حیض میں ہوجائز اور صحیح ہے اور اس میں کوئی حرج نہیں ۔یہ اس لیے کہ عقود میں اصل جواز وصحت ہی ہے الا کہ جس کی حرمت پر کوئی دلیل ثابت ہوجائے اور حالت حیض میں نکاح کی حرمت پر کوئی دلیل ثابت نہیں۔اس لیے کہ اس حالت میں نکاح درست ہے۔