سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(202) کیا نیک مرد نیک عورت سے ہی شادی کرے؟

  • 15720
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-23
  • مشاہدات : 1658

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
میں نے سنا ہے کہ انسان جس کا مستحق ہواسے وہی ملتا ہے( یعنی خاوند یا بیوی) اگر تو وہ نیک اور صالح ہو تو اس کا خاوند بھی نیک اور صالح ہو تا ہے لیکن مجھے اس موضوع میں کوئی حدیث نہیں ملی آپ اس بارے میں کیا کہتے ہیں؟

الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

۔ آپ نے جو یہ سنا ہے کہ انسان کی شادی بھی اسی سے ہوتی ہے جس کا وہ مستحق ہوتا ہے یعنی اگر نیک ہوتو نیک اور صالح سے اور اگر بد ہوتو بد سے یہ صحیح نہیں اور اس کے دلائل مندرجہ ذیل ہیں۔

1۔اللہ تعالیٰ نے اپنے نبیوں میں سے حضرت نوح اور حضرت لوط  علیہ السلام   کے متعلق بیان کیا ہے کہ ان دونوں کی بیویاں کافر تھیں اس کاذکر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے کچھ اس طرح فر مایا :

﴿ضَرَ‌بَ اللَّهُ مَثَلًا لِلَّذينَ كَفَرُ‌وا امرَ‌أَتَ نوحٍ وَامرَ‌أَتَ لوطٍ كانَتا تَحتَ عَبدَينِ مِن عِبادِنا صـٰلِحَينِ فَخانَتاهُما فَلَم يُغنِيا عَنهُما مِنَ اللَّهِ شَيـًٔا وَقيلَ ادخُلَا النّارَ‌ مَعَ الدّ‌ٰخِلينَ ﴿١٠﴾... سورة التحريم

"اللہ تعالیٰ نے کافروں کے لیے نوح اور لوط علیہ السلام   کی بیوی کی مثال بیان فرمائی ہے یہ دونوں ہمارے بندوں میں سے دو (شائستہ اور)نیک بندوں کے گھر میں تھیں پھر انھوں نے ان کی خیانت کی تو وہ دونوں (نیک بندے )ان سے اللہ تعالیٰ کے(کسی عذاب کو) روک نہ سکے اور حکم دے دیا گیا(اے عورتو!)دوزخ میں جانے والوں کے ساتھ تم بھی چلی جاؤ۔"

2۔شریعت اسلامیہ نے زانی مرد کو پاکدامن عورت سے اور اسی طرح پاکدامن مرد کو زانیہ عورت سے شادی کرنے سے منع کیا ہے اور یہ بھی اس (یعنی نیک کے ساتھ بدکے نکاح) کے وقوع کے امکان پر دلالت کرتا ہے بلکہ ایسا بہت زیادہ ہوا بھی ہے اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا فرمان ہے۔

﴿الزّانى لا يَنكِحُ إِلّا زانِيَةً أَو مُشرِ‌كَةً وَالزّانِيَةُ لا يَنكِحُها إِلّا زانٍ أَو مُشرِ‌كٌ وَحُرِّ‌مَ ذ‌ٰلِكَ عَلَى المُؤمِنينَ ﴿٣﴾... سورة النور

"زانی مردزانیہ یا مشرک عورت کے علاوہ کسی اورسے شادی نہیں کرتا اور زانیہ عورت بھی زانی مرد یا مشرک مرد کے علاوہ کسی اور سے شادی نہیں کرتی اور ایمان والوں پر یہ حرام کیا گیا ہے۔"

3۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے یہ بتایا ہے کہ عورت سے بعض اوقات اس کے مال ودولت یا پھر اس کی خوبصورتی کی وجہ سے یا پھر اس کے حسب نسب کی بنا پر یا اس کے دین کی وجہ سے شادی کی جاتی ہے۔مگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے یہاں پر دین والی عورت سے شادی کی ترغیب دی ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ بعض اوقات اس کے علاوہ کچھ اور بھی ہو سکتا ہے کہ مرد ایسی عورت سے شادی کرلے جو اس کی مماثلت نہیں رکھتی۔

حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ  تعالیٰ عنہ  سے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

"عورت سے نکاح چار اسباب سے کیاجاتاہے اس کے مال کی وجہ سے اس کے خاندان کی وجہ سے اس کے حسن وجمال کی وجہ سے اور اس کے دین کی وجہ سے پس تو دین دار عورت سے نکاح کرکے کامیابی حاصل کر اگر ایسا نہ کرے تو  تیرے دونوں ہاتھ خاک آلودہ ہوں(یعنی تو نادم وپشیمان ہو)۔"( بخاری(5090) کتاب النکاح باب الا کفاء فی الدین مسلم(1466) کتاب الرضاع باب استحباب نکاح ذات الدین احمد(2/428) دارمی(2/133) ابو داود(2047) کتاب النکاح باب ما یومر بہ من تزویج ذات الدین ابن ماجہ(1858)

4۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے عورتوں کے اولیاء کو یہ حکم دیا ہے کہ وہ اپنی زیر ولایت عورتوں کی دیندار لوگوں سے شادی کریں جو اس بات کی دلیل ہے کہ اس کےخلاف بھی ہوسکتا ہے۔

حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ  تعالیٰ عنہ  بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

"جب  تمہارے پاس کوئی ایسا شخص نکاح کا پیغام بھیجے جس کادین اور اخلاق  تم  پسند کرتے ہوتو اس سے نکاح کردو۔اگر تم ایسا نہ کرو گے تو زمین میں فتنہ اور بہت بڑا فساد ہوگا۔"( حسن ارواء الغلل(1868)  ترمذی(1084) کتاب النکاح باب ما جاء اذا کم من ترضوان دینہ فزوجوہ ابن ماجہ(1967) کتاب النکاح باب الاکفاء

لہذا جو شخص بھی اپنے لیے بیوی تلاش کرے اسے چاہیے کہ وہ دین اور اخلاق کی مالک لڑکی تلاش کرے اور اسی طرح  عورت کے ولی کو بھی چاہیے کہ وہ لڑکی کی شادی صرف دین والے سے ہی کریں کیونکہ انسان اپنے ساتھ رہنے والے سے اخلاق حاصل کرتا ہے اور خاص کر جب یہ ساتھ ایک لمبی مدت کا ہو۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کا فرمان ہے:

«أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ : " الرَّجُلُ عَلَى دِينِ خَلِيلِهِ فَلْيَنْظُرْ أَحَدُكُمْ مَنْ يُخَالِلْ »

"مرد ا پنے دوست کی عادت پر ہے اس لیے تم میں سے ہر ایک کو چاہیے کہ وہ یہ دیکھے کہ کس سے  دوستی لگا رہا ہے۔( حسن صحیح ترمذی(1937) کتاب الذھد باب ماجاء فی اخذالمال فی حقہ ترمذی(2378)

معلوم ہوا کہ انسان جس کادین اور اخلاق وعادات اچھی ہوں اس سے دوستی لگائے اور جس کی یہ چیزیں اچھی نہ ہوں وہ اس سے دوستی لگانے سے اجتناب کرے کیونکہ طبعیتیں صحبت کا اثر لیتی ہیں اور کسی کی حالت کو صحیح اور خراب کرنےمیں صحبت کا بہت ہی زیادہ اثر ہوتا ہے(جیسے ضرب المثل بھی ہے کہ خربوزہ خربوزے کو دیکھ کر رنگ پکڑتا ہے۔

امام غزالی  رحمۃ اللہ علیہ  کہتے ہیں:

حریص اور لالچی سے دوستی لگانے اور اس کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے سے حرص ولالچ پیدا ہوتاہے اور زاہد سے د وستی لگانے سے اور اس کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے سے دنیا میں زہد پیدا ہوتاہے کیونکہ طبیعتیں ایک دوسرے کی مشابہت اختیار کرتی ہیں بلکہ ایک طبیعت دوسری  طبعیت سے اس طرح عادات حاصل کرتی ہے  جس کا انسان کو شعور بھی نہیں ہوتا۔(شیخ محمد المنجد)
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ نکاح و طلاق

ص269

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ