اصل بات تو یہی ہے کہ بطور مہر وہی چیز ادا کی جائے گی جو اس نے بیوی کو کہی تھی لیکن اگرخاوند اور بیوی دونوں اس کے خلاف یا پھر اس میں کمی یا زیادتی پر متفق ہوجائیں تو ایساکرنا بھی جائز ہے۔اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
"اور مہر مقررہوجانے کے بعد تم آپس کی رضا مندی سے جوطے کرلو اس میں تم پر کوئی حرج نہیں۔"(النساء:24)
امام قرطبی رحمۃ اللہ علیہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
یعنی مہر مقرر ہوجانے کے بعد رضا مندی کے ساتھ اس میں کمی یا زیادتی کرنا جائز ہے۔(تفسير قرطبى(5/235)
شیخ صالح فوزان رحمۃ اللہ علیہ کا کہنا ہے:
جب بیوی اپنے مہر میں سے خاوند کو کچھ یا سارا ہی معاف کردے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔کیونکہ یہ اس کا حق ہے۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہےکہ:
"اگر وہ خود اپنی خوشی سے کچھ مہر چھوڑ دیں تو اسے شوق سے خوش ہوکر کھالو۔"(النساء:4)
اس میں طرفین کا اتفاق ضروری ہے۔(فتاوىٰ نور على الدرب109)
اس سے یہ واضح ہوا کہ جب عورت اس پر راضی ہوجائے تو اس میں کوئی حرج نہیں کیونکہ یہ اس کاحق ہے اور وہ اس پر راضی ہے۔(واللہ اعلم)(شیخ محمد المنجد)