میں اپنے سائل بھائی اور دیگر قارئین کو ایک مفید قاعدہ بتلانا چاہتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ"جوچیز کمائی کی وجہ سے حرام کی گئی ہو وہ صرف کمانے والے پر ہی حرام ہے اور جو چیز بذات خود حرام کی گئی ہو وہ صرف کمانے والے پر ہی حرام ہے اور جو چیز بذات خود حرام کی گئی ہو وہ کمانے والے اور دیگر سب افراد پر حرام ہے۔"
اس کی مثال یہ ہے کہ کوئی شخص کسی دوسرے کامعین مال چرالیتا ہے اور پھر وہی مال کسی اور کوتجارت یا ہبہ کی صورت میں دینا چاہتا ہے تو ہم کہیں گے کہ یہ حرام ہے کیونکہ یہ مال بذات خود ہی حرام کا ہے۔البتہ جس کمائی کو حرام کیا گیا ہے اس کی مثال یہ ہے کہ جیسے کوئی شخص دھوکے یا سود یا اس کے مشابہ کسی ذریعے سے کمائی کرے تو یہ کمانےوالے پر توحرام ہے لیکن اس پر نہیں جو اسے حق اور دلیل کے ساتھ لے۔کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہود سے ہدیہ قبول کرلیاکرتے تھے ان کی دعوت قبول کرلیا کرتے تھے ان کا کھانا کھا لیا کرتے تھے اور ان سے اشیاء خرید بھی لیا کرتے تھے حالانکہ یہ بات معلوم ہے کہ یہودی سودی کاروبار کیاکرتے تھے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے بارے میں قرآن میں ذکر فرمایا ہے۔
تو اس قاعدے کی بنیاد پر میں اس سائل کے لیے یہ کہتاہوں کہ آپ وہ تمام رقم جس کی آپ کو شادی کے لیے ضرورت ہے اپنے والد کے مال سے لے لیں وہ آپ کے لیے حلال ہے حرام نہیں اور گناہ صرف آپ کے والد پر ہے(جو اس کو غلط طریقے سے کمانے والے ہے ) اور میں اللہ تعالیٰ سے سوال کر تا ہوں کہ وہ اسے ہدایت سے نوازےاور سود چھوڑنے اور اس سے توبہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے آپ کے والد کو علم ہوناچاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں فرمایا ہے کہ:
"سود خور لوگ نہ کھڑے ہوں گے مگر اسی طرح جس طرح وہ کھڑا ہوتا ہے جسے شیطان چھو کرخبطی بنادے۔"
مفسرین نے اس آیت کا یہ معنی بیان کیاہے کہ سود خور جب روز قیامت اٹھائے جائیں گے تو اس طرح کھڑے ہوں گے جیسے شیطان نے انھیں چھوکر خبطی یعنی پاگل بنادیا ہے۔تو یہ سخت سزا ہے جو انہیں روز قیامت سب لوگوں کے سامنے رسوا کرے گی۔(شیخ ابن عثمین رحمۃ اللہ علیہ )