السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
«عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضی اﷲ عنہما قَالَ صَلّٰی رَسُوْلُ اﷲِ ﷺ اَلظُّہْرَ وَالْعَصْرَ جَمِیْعًا بِالْمَدِیْنَةِ فِيْ غَیْرِ خَوْفٍ وَلاَ سَفَرٍ قَالَ اَبُو الزُّبَیْرِ فَسَأَلْتُ سَعِیْدًا لِمَ فَعَلَ ذٰلِکَ فَقَالَ سَأَلْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ رَضی اﷲ عنہما کَمَا سَأَلْتَنِیْ فَقَالَ اَرَادَ اَنْ لاَّ یُحْرِجَ اَحَدًا مِنْ اُمَّتِہٖ»(صحیح مسلم ’’کتاب صلوۃ المسافرین ۔ باب جواز الجمع بین الصلوتین فی الحضر)
’’عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے ظہر اور عصر کی نماز مدینہ میں بغیر خوف اور سفر کے ملا کر پڑھی ۔ ابو الزبیر نے کہا کہ میں نے سعید سے پوچھا کہ آپ نے کیوں ایسا کیا ؟ انہوں نے کہا میں نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے یہی پوچھا تھا جیسا تم نے مجھ سے پوچھا انہوں نے کہا کہ حضرتﷺ نے چاہا کہ آپ کی امت میں سے کسی کو تکلیف نہ ہو‘‘
«فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ اَتُعَلِّمُنِیْ بِالسُّنَّةِ لاَ اُمَّ لَکَ ثُمَّ قَالَ رَأَیْتُ رَسُوْلَ اﷲِ ﷺ جَمَعَ بَیْنَ الظُّہْرِ وَالْعَصْرِ وَالْمَغْرِبِ وَالْعِشَائِ»(صحیح مسلم صلاۃ المسافرین ۔ باب الجمع بین الصلاتیں فی الحضر)
’’عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا تو مجھے سنت سکھاتا ہے تیری ماں مرے۔ پھر کہا کہ میں نے رسول اللہﷺ کو دیکھا کہ آپ نے جمع کیا ظہر اور عصر کو اور مغرب اور عشاء کو‘‘
اچھا ان احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ بغیر خوف سفر اور بارش کے نمازیں جمع کیں رسول اللہﷺ نے تو کیا ان احادیث سے استدلال کر کے نماز مغرب اور عشاء جمع کی جا سکتی ہے کیونکہ امت کی آسانی کے لیے ہے ۔
دراصل ہم سارا دن کام کرتے ہیں فرنیچر کا اور رات کو اوور ٹائم کام کرنا ہوتا ہے۔ اور ٹائم 1/2/6رات سے شروع ہوتا ہے اور رات کو1/2/10بجے تقریباً ختم ہوتا ہے۔ اگر 1/2/10بجے نماز عشاء کی پڑھیں تو نیند کا غلبہ ہوتا ہے جب سوتے ہیں تو صبح ۵ بجے جاگتے ہیں اس لیے مذکورہ بالا احادیث سے استدلال کر کے کیا ہم رات ۶ بجے مغرب اور عشاء مسلسل تقریباً 1/2/2ماہ تک جمع کر سکتے ہیں؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
آپ نے صحیح مسلم سے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی ایک حدیث نقل فرمائی ہے جس میں حضر وامن کے اندر نماز جمع کرنے کا بیان ہے رسول اللہ ﷺ نے اپنی پوری حیات طیبہ میں صرف ایک ہی دفعہ ایسا کیا اور آپ کا عام معمول وہی تھا جو صحیح بخاری صحیح مسلم سنن اربعہ اور دیگر کتب حدیث میں بیان ہوا پھر رسول کریمﷺکا اس ایک واقعہ میں نمازوں کو جمع فرمانا صرف صورۃً ہی تھا حقیقتاً نہ تھا چنانچہ اسی حدیث کے الفاظ نسائی شریف کی ایک روایت میں اس طرح ہیں:
«عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضی اﷲ عنہما قَالَ صَلَّیْتُ مَعَ النَّبِیِّ ﷺ بِالْمَدِیْنَةِ ثَمَانِیًا جَمِیْعًا وَسَبْعًا جَمِیْعًا اَخَّرَ الظُّہْرَ وَعَجَّلَ الْعَصْرَ وَاَخَّرَ الْمَغْرِبَ وَعَجَّلَ الْعِشَائَ»(باب الوقت الذی یجمع فیہ المقیم ۔ المجلد الاول ص ۶۹)
’’حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ فرماتے ہیں کہ میں نے نبیﷺ کے ساتھ مدینہ میں آٹھ رکعات اکٹھی اور سات رکعات اکٹھی پڑھی اور ظہر کو مؤخر کیا اور عصر کو جلدی کیا اور مغرب کو مؤخر کیا اور عشاء کو جلدی کیا‘‘ لہٰذا کوئی صاحب کبھی کبھار حضروامن میں ظہر وعصر یا مغرب وعشاء میں سے پہلی کو آخر اور دوسری کو اول وقت پرپڑھ کر دونوں کو صورۃً جمع فرما لیں تو ان کا یہ عمل شرعاً درست ہو گا البتہ عام معمول وہی رہے جو رسول اللہﷺ کا عام معمول رہا ۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے بھی اپنی طرف سے نبی کریم ﷺ کے مذکورہ بالا ایک مرتبہ دو نمازوں کو جمع کرنے کی غرض وغایت بیان کرتے ہوئے صرف حرج ہی کی نفی فرمائی ہے اس کو فرض یا افضل قرار نہیں دیا۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب